2025-07-06
ali-20wali-20awal.png

نبی ﷺ کے اوّلین روحانی جانشین

 نبی ﷺ کے اوّلین روحانی جانشین

از قلم ساجد محمود انصاری

قرآن و سنت میں امام علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب اس قدر کثرت کے ساتھ وارد ہوئے ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا ناچیز کے قوتِ قلم سے باہر ہے۔ سرِ دست ہم ایک متواتر حدیث رسول ﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں، جس میں رسول اکرم ﷺ نےاپنے بعد  امام علی علیہ السلام کو اپنا اوّلین روحانی جانشین ہونے کی بشارت سنائی۔

 

عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِکٍ: إِنِّی أُرِیدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ حَدِیثٍ وَأَنَا أَہَابُکَ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْہُ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ یَا ابْنَ أَخِی! إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ عِنْدِی عِلْمًا فَسَلْنِی عَنْہُ وَلَا تَہَبْنِی، قَالَ: فَقُلْتُ: قَوْلُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِعَلِیٍّ حِینَ خَلَّفَہُ بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ سَعْدٌ: خَلَّفَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلِیًّا بِالْمَدِینَۃِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَتُخَلِّفُنِی فِی الْخَالِفَۃِ فِی النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: ((أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسَی؟)) قَالَ: بَلَی،یَارَسُولَ اللّٰہِ! قَالَ: فَأَدْبَرَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا کَأَنِّی أَنْظُرُ إِلٰی غُبَارِ قَدَمَیْہِ یَسْطَعُ، وَقَدْ قَالَ حَمَّادٌ: فَرَجَعَ عَلِیٌّ مُسْرِعًا۔[1]

سعید بن مسبب سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا سعد بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں، لیکن آپ سے پوچھتے ہوئے ڈرتا بھی ہوں۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! ایسا نہ کرو، جب تم جانتے ہو کہ میرے پاس کسی بات کا علم ہے تو مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، پوچھو، میں نے کہا: غزوۂ تبوک کے موقع پر جب اللہ کے رسول نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنے پیچھے چھوڑ کر جا رہے تھے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اپنے پیچھے مدینہ منورہ میں چھوڑنے کا اظہار فرمایا تو انہوں نے عرض کیا: کیا آپ مجھے یہاں غزوہ سے پیچھے رہ جانے والی عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تمہاری میرے ساتھ وہی نسبت ہو جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کو تھی؟ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ٹھیک ہے، پھر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یوںتیزی سے واپس ہوئے کہ گویا میں ان کے قدموں سے اُڑنے والے غبار کو اب بھی دیکھ رہا ہوں، دوسری روایت میں ہے: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ جلدی جلدی واپس لوٹ گئے۔

عَنْ مُوسَی الْجُہَنِیِّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی فَاطِمَۃَ بِنْتِ عَلِیٍّ فَقَالَ لَہَا رَفِیقِی أَبُو سَہْلٍ: کَمْ لَکِ؟ قَالَتْ: سِتَّۃٌ وَثَمَانُونَ سَنَۃً، قَالَ: مَا سَمِعْتِ مِنْ أَبِیکِ شَیْئًا؟ قَالَتْ: حَدَّثَتْنِی أَسْمَائُ بِنْتُ عُمَیْسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ لِعَلِیٍّ: ((أَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّہُ لَیْسَ بَعْدِی نَبِیٌّ۔))[2]

موسیٰ جہنی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں فاطمہ بنت علی علیہم السلام  کی خدمت میں گیا،میرے رفیق ابو سہل نے ان سے پوچھا: آپ کی عمر کتنی ہے؟ انہوں نے کہا: چھیاسی برس، ابو سہل نے کہا: آپ نے اپنے والد (سیدنا علی ‌علیہ السلام) کے بارے میں کیا کچھ سنا ہے؟ انہوں نے کہا: سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌علیہ السلام سے فرمایا: تمہارا مجھ سے وہی تعلق ہے، جو ہارون علیہ السلام کا موسی علیہ السلام سے تھا، الایہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ: لَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنْ یُخَلِّفَ عَلِیًّا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ لَہُ عَلِیٌّ: مَا یَقُولُ النَّاسُ فِیَّ إِذَا خَلَّفْتَنِی؟ قَالَ: فَقَالَ: ((مَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّہُ لَیْسَ بَعْدِی نَبِیٌّ، أَوْ لَا یَکُونُ بَعْدِی نَبِیٌّ۔)) [3]

سیدنا جابر بن عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ (غزوۂ تبوک کے موقع پر ) جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا علی ‌علیہ السلام  کو اپنا جانشین بنانے  کا ارادہ کیا تو سیدنا علی ‌علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے یوں  (مدینہ میں) پیچھے چھوڑ جائیں گے تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیاتمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہارا تعلق میرے ساتھ وہی ہو، جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، الایہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے امام علی علیہ السلام کو  صرف غزوہ تبوک کے ایام میں اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا اور نبی ﷺ کی واپسی پر آپ ان کی جانشینی کے اس منصب سے معزول ہوگئے تھے (معاذاللہ)۔  باور کرلیجیے کہ جو شخص بھی ایمان داری کے ساتھ نبی ﷺ کے الفاظ پر غور کرے گا اس پر یہ واضح ہوجائے گا کہ نبی ﷺ نے امام علی علیہ السلام کو غزوۂ تبوک کے ایام میں تو اپنا جانشین بنایا ہی تھا، البتہ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ الا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ظاہر کرتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نبی ﷺ کی وفات کے بعد بھی ان کے اوّلین جانشین ہوں گے۔ہاں نبی  کی حیثیت انہیں حاصل نہ ہوگی کیوں کہ نبوت نبی اکرم ﷺ پر ختم ہوگئی۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث متواتر میں امام علی علیہ السلام کی کوئی امتیازی شان بیان نہیں کی گئی بلکہ صرف غزوۂ تبوک کے ایام میں  مدینہ میں نائب کی حیثیت سے رہنے کا تذکرہ ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو کئی بار غزوات کے موقعہ پر جانشین بنایا تھا۔ جان لیجیے کہ ایسی سوچ کسی ناصبی کی تو ہوسکتی ہے کسی مؤمن صادق کی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے وضاحت ملتی ہے:

سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے مروی ہے:

وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ عَلِیٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ نَبِیُّ اللّٰہِ: ((لَا۔)) فَبَکٰی عَلِیٌّ، فَقَالَ لَہُ: ((أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ ہَارُونَ مِنْ مُوسٰی إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، إِنَّہُ لَا یَنْبَغِی أَنْ أَذْہَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِیفَتِی)) قَالَ: وَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ: أَنْتَ وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی۔[4]

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو ساتھ لیے تبو ک کی طرف روانہ ہوئے، تو علی ‌علیہ السلام نے کہا: میں بھی آپ کے ہمراہ جاؤں گا ۔نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انکار کردیا تو وہ رونے لگے تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کا تھا، فرق صرف اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو، میں جاؤں تو تم میرے جانشین کی حیثیت سے یہاں رہو، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے فرمایا تھا میرے بعد تم ہر مومن کے سردار ہوگے۔

خطبہ غدیر خُم میں بھی  نبی ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ

مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ  [5].

جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔

یہاں مولا کا لفظ جس طرح نبی ﷺ کے لیے سردارو آقاکے لیے استعمال ہوا ہے اسی طرح امام علی علیہ السلام کے لیے استعمال ہوا ہے۔امام علی علیہ السلام نبی ﷺ کی طرح امت کے ولی بھی ہیں اور مولا بھی ہیں۔یہاں ولی و مولا دونوں اولیٰ و اعلیٰ، سردارو آقا کے معنیٰ میں استعمال ہوئے ہیں۔ جس سے لازم آتا ہے کہ امام علی علیہ السلام نہ صرف یہ کہ امت میں سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہیں بلکہ بلکہ آپ نبی ﷺ کے اوّلین روحانی جانشین بھی ہیں۔

جس طرح بعض  بد بخت لوگ امام علی علیہ السلام کی تنقیص کرتے ہیں  اور ان کے جائز مقام و مرتبہ کو تسلیم کرنے  میں بخل و بددیانتی سے کام لیتے ہیں اسی طرح بعض لوگ امام علی  علیہ السلام کی محبت و عقیدت میں غلو کرکے  مذکورہ بالا مناقب و فضائل سے بعض غلط اور خلافِ حقیقت نتائج  نکال لیتے ہیں۔مثلاً بعض لوگوں کا گمان ہے کہ نبی ﷺ نے مذکورہ بالا احادیث میں امام  علی علیہ السلام کو  اپنے بعد اپنا سیاسی جانشین بھی مقرر فرمایا تھا۔

ہمارے نزدیک یہ رائے مبالغہ پر مبنی ہے، اگرچہ ظاہری الفاظ سے یہ مفہوم بھی کشید کیا جاسکتا ہے، مگر تاریخِ امت گواہ ہے  کہ امام علی علیہ السلام امت کے پہلے سیاسی خلیہ نہیں تھے بلکہ امت کے پہلے سیاسی خلیفہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  منتخب ہوئے تھے۔اگر نبی ﷺ نے اپنے بعد امام علی علیہ السلام کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کیا ہوتا تو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کسی دوسرے شخص کو اپنا حاکم بنانے پر ہرگز راضی نہ ہوتے۔ یہ درست ہے کہ امام علی علیہ السلام سمیت تمام بنو ہاشم کو یہ گلہ تو ضرور تھا کہ انہیں سیاسی خلیفہ کا انتخاب کرتے وقت مشاورت میں شامل کیوں نہیں کیا گیا،  مگر یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ بالآخر امام علی علیہ السلام اور دیگر بنو ہاشم نے بھی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر حاکمِ وقت  کے طور پر بیعتِ اطاعت  کرلی تھی۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسے شجاع و جری شخص تقیہ کرتے ہوئے کسی کی اطاعت تسلیم کرلیں۔

ان تاریخی حقائق سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امت بشمول امام علی علیہ السلام نےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی ﷺ کے بعد  اپنا پہلا حاکم تسلیم کرکے نبی ﷺ کے کسی حکم بھی خلاف ورزی نہیں کی۔ اس کے برعکس اگر یہ کہا جائے کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد سیدنا علی علیہ السلام کو امت کا حاکم مقرر کیا تھا مگر امام علی علیہ السلام  سمیت  ساری امت نےنبی ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اتفاق کرلیا تھا تو یہ ان پر بہت بڑا بہتان ہے جس سے قرآن کی تکفیر لازم آتی ہے۔  ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ [6]

بے شک تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو برائی سے روکتے ہو۔

اس آیتِ کریمہ سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری امت برائی پر جمع نہیں ہوسکتی، جبکہ رسول اکرم ﷺ کی مخالفت شرک کے بعد سب سے بڑی برائی ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ مؤمنین بنو ہاشم (اہلِ بیت رسول ﷺ) سمیت ساری امت نبی ﷺ کی مخالفت پر ایکا کرلے؟ نبی ﷺ تو امام علی ﷺ کو اپنا حاکم بنانے کی ہدایت فرمائیں اور امت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا حاکم بنالے؟ پس معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا احادیث میں خلافت و ولایت سے مراد ولایت فقہی ہے نہ کہ سیاسی ولایت۔لہٰذا امام علی علیہ السلام نبی ﷺ کے اوّلین  روحانی جانشین ہیں اور آپ کو امت کی ولایتِ فقہی حاصل ہے۔دعوت و ارشاد اور حکمت و معرفت کے لیے ہم قرآن و سنت کے بعد امام علی علیہ السلام سے رجوع کرنے اور ان کے قول کو باقی امتیوں کے قول پر ترجیح دینے کے پابند ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب



[1] مسند احمد: رقم 1490

[2] مسند احمد: رقم 27621

[3] مسند احمد: رقم 14693

[4] مسند احمد: رقم 3061

[5] مسند احمد: رقم 22995

[6] آل عمران:110

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading