2025-07-06
tarjeehat.png

ترجیحات کا تعین کیسے کیا جائے؟

 ترجیحات کا تعین کیسے کیا جائے؟

از قلم ساجد محمود انصاری

زندگی میں انسان کو ہزاروں کام کرنا ہوتے ہیں اور ان کاموں کی وجہ سے اکثرانسان  اضطراب، کشمکش اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں، مگر عقل مند انسان  اپنے کام پرسکون طریقے سے کرتے ہیں اور اضطراب و پریشانی کا شکار بھی نہیں ہوتے۔

زندگی میں پریشانیوں کو شاید مکمل طور ختم نہیں کیا جاسکتا  کیوں کہ یہ دارالامتحان ہے، تاہم اگر ہم اپنے کاموں میں ترجیحات کا تعین کر لیں توسبھی کام نسبتاً سکون واطمینان سے سرانجام دئیے جاسکتے ہیں۔ترجیحات سے ہماری مراد یہ ہے کہ آپ کو یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سے کام کی کیا نوعیت ہے اور اس کی آپ کی زندگی میں حقیقتاً کتنی اہمیت ہے؟ لہٰذا وہ کون سے کام ہیں جن کو دوسرے کاموں پر ترجیح دینا چاہیے؟ اور کون سے کام کو ملتوی کیا جاسکتا ہے؟ کون سے کاموں پر زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے اور کون سے کاموں میں وقت بالکل ضائع نہیں کرنا چاہیے؟

آپ کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو آپ کے سامنے کاموں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے، جن میں آپ نے ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ یہ ترجیحات یومیہ بنیاد پر بھی ہوسکتی ہیں اور ہفتہ وار، ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر بھی ہوسکتی ہیں۔اپنے نظام الاوقات کے مطابق آپ کے کام عموماً چار نوعیت کے ہوتے ہیں:

1۔ ضروری اور فوری

 کچھ کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا کرنا ضروری بھی ہوتا ہے اور ہوتے بھی وہ فوری نوعیت کے ہیں، یعنی آپ ان کاموں کو ٹال نہیں سکتے۔ اگر آپ ضروری اور فوری نوعیت کے کسی بھی کام کو ٹالتے ہیں تو آپ کو کسی بھی قسم کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔یہ نقصان مالی بھی ہوسکتا ہے ، جانی بھی اور جذباتی بھی۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بچہ بار بار قے کررہا ہے تو اس کے علاج کا فوری انتظام کرنا ضروری ہے، کوتاہی کی صورت میں آپ کے بچے کی جان بھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح دفتری کاموں  میں بھی کوئی ایسا کام بھی ہوسکتاہےکہ  اگر آپ وہ فوری طور پر نہیں کرتے تو آپ کے ادارے کو سخت مالی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔اگر آپ  ادارے کے مالک ہیں تو بھی آپ کا نقصان ہوگا اور اگر آپ ملازم ہیں تو ادارے کے نقصان کی وجہ سے آپ کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ضروری  اور فوری نوعیت کے کام آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ لیکن آپ کی زندگی میں ایسے کاموں کی بھرمار نہیں ہونا چاہیے۔اگر آپکے اکثر کاموں کی نوعیت ضروری اور فوری ہوگی تو آپ ہر کام افراتفری میں کریں گے اور کسی کام کے لیے ڈھنگ سے پلاننگ نہیں کرسکیں گے۔دنیا میں سب سے زیادہ پریشان وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس ضروری اور فوری نوعیت کے کاموں کی بھرمار ہوتی ہے اور وہ زچ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ عموماً ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور بہت ہی کم مواقع پر وہ خوشی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے خوشیوں بھرے تہوار بھی دکھ اور تکلیف میں گزرتے ہیں۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ضروری اور فوری نوعیت کے کاموں کی فہرست کو کیسے مختصر کیا جاسکتا ہے؟

2۔ ضروری مگر غیر فوری

عقل مند لوگوں کے کاموں کی فہرست میں ان کاموں کی تعداد عام طور پر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔یہ وہ کام ہیں جن کا کرنا آپ کے لیے ضروری ہے، تاہم ان کاموں کو کرنے کے لیے آپ کے پاس مناسب وقت باقی ہے۔آپ وقت سے پہلے انہیں کرنے کے لیے ضروری وسائل حاصل کرتے ہیں اور انہیں سرانجام دینے کے لیے ایک ترتیب بنالیتے ہیں۔لہٰذا آپ  پرسکون طریقے سےوقت پر ان کاموں کو مکمل کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے آپ کو کسی ہنگامی صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔لیکن اگر آپ نہ تو ان کاموں کی ترتیب بنائیں اور نہ ہی انہیں وقت سے پہلے مکمل کریں تو وہ کام ضروری اور غیر فوری کی نوع سے نکل کر ضروری اور فوری کی نوع میں داخل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہی افراتفری اور ہنگامی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے جس کا ذکر پہلی نوعیت میں کیا گیا۔ مثال کے طور پر بجلی، گیس، یا فون کا بل اگر آپ وقت سے پہلے جمع کروادیں تو آپ پرسکون ہوجاتے ہیں اور ذہنی دباؤ سے بھی بچ جاتے ہیں لیکن اگر یہی کام آپ آخری تاریخ کو سرانجام دیں تو اس دن دوسرے کام بھی آپ کا انتظار کررہے ہوں گے، جس کی وجہ سے افراتفری کی صورحال پیدا ہوجائے گی۔

3۔ غیر ضروری اور غیر فوری

یہ وہ کام ہیں جن کی تعداد آپ کی زندگی میں سب سے کم ہونا چاہیے۔ایسے کام عام طور پر فراغت میں کیے جاتے ہیں۔مثلاً کسی تاریخی مقام کی سیر یا شاعری کی کتاب پڑھنا، یا کوئی ڈاکومینٹری مووی دیکھنا یا رشتہ داروں سے ملنا  اور دوستوں سے گپ شپ لگاناوغیرہ۔ظاہر ہے کہ اگر آپ کے پاس پہلی دو نوعیت کے کام ابھی زیرِ التوا ہیں تو آپ اپنا   وقت تیسری نوعیت کے ان کاموں میں صرف نہیں کرسکتے۔اگر ایسا کریں گے تو لامحالہ وہ پہلے دو کاموں کے کرنے میں کوتاہی کا باعث بنے گا۔جو یقیناً پریشانی کا باعث بنے گا۔

4۔ لا یعنی / فضول کام

وہ کام جو آپ کو زندگی میں بالکل نہیں کرنے چاہیں وہ فضول کام ہیں جن سے دین اور دنیا کی کوئی بھلائی بھی حاصل نہ ہوتی ہو اور ایسے کام محض وقت یا پیسے کا ضیاع ثابت ہوں۔ظاہر ہے کہ اس بارے میں ہمارا دین ہمیں بہترین رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ سارے کام جن سے شریعت نے بچنے کا حکم دیا ہے ان سے بچا جائے اور ان کاموں کو بھی چھوڑ دیا جائے جو ان کاموں کو کرنے میں رکاوٹ بنیں جن کو کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے یا اس کی تاکید فرمائی ہےیا اسے مستحب جانا ہے۔انسانی معمولات  کے مشاہدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جو انسان اپنا وقت ان فضول کاموں میں ضائع کردیتا ہے وہ فرائض کی ادائیگی میں بھی کوتاہی برتنے لگتا ہے۔پھر ضروری  مگر مباح کاموں میں بھی غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔انجامِ کار ایسا انسان دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خسارہ اٹھاتا ہے۔سورۃ العصر بھی ہماری اسی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

درج ذیل شکل میں مذکورہ بالا گزرشات کا ایک خلاصہ لکھ دیا گیا ہے۔

ترجیحات کی ترتیب


 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading