اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ
وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ۔
گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالےٰ کے سوا کوئی اِلٰہ(معبود ِحقیقی) نہیں ،وہ یکتا ویگانہ ہے ،کوئی اُس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ (سیدنا) محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں
یعنی میں زبان ودل سے اقرار اور تصدیق کرتا ہوں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کائنات کایکتا ویگانہ خالق اور ربّ ومالِک ہے ،کائنات کی کوئی شے اس سے پوشیدہ نہیں، وہی کائنات کا مدبر ومنتظم اور نگران ونگہبان ہے، نظمِ کائنات اس کی قدرت ومشیت اور امرِ حکیم سے قائم ہے ، اسکی ذاتِ اقدس کائنات سے ماورا ہے ،زمان ومکان کی وسعتیں اسکی ذات کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔وہ اجزاء سے مرکب کوئی جسم نہیں بلکہ وہ ایسی بے مثل اور عظیم ذات ہے کہ اسکی کنُہہ وحقیقت انسانی عقل میں نہیں سما سکتی ۔ اسکی ذات وصفات کے سوا ہر شے اسکی مخلوق اورعبدو مملوک ہے ، وہ سب سے بے پرواہ ہے جبکہ ہر شئے اپنے وجود کیلئے اسکی محتاج ہے ۔ وہ کائنات کا حقیقی الٰہ ہے ،اسکے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جس میں صفاتِ اُلُوہِیَّت پائی جائیں۔ وہ جملہ صفات ِکمال کا یکتا وتنہا مالک ہے ، ان صفات میں کوئی اسکی ہمسری نہیں کر سکتا ۔ انسان اور اسکی زندگی کی بقا کے جملہ لوازمات اسی رحمن ورحیم ربّ نے پیدا کیے ہیں ، وُہی سب کا داتا ہے ، جوسب کو دیتا ہے ،وُہی اپنے سب بندوں کی پکاروں کو بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے براہِ راست سنتا اور انکی حاجات پوری کرتا ہے۔ لہٰذا حقیقی مشکل کشا وحاجت روا صرف اسی کی ذات ِبابرکت ہے ، وہی مختار ِکُل ہے ،ہر نفع ونقصان کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے ، رزق میں فراخی وتنگی ، موت وحیات ،عزت وذلت ،مرض وشفا، رنج وراحت ،اولاد کی پیدائش یا بانجھ پن سب اسی کے اختیار میں ہے ۔ اس نے جو چاہا سو ہوا اور جو نہ چاہا وہ نہ ہوا ، لہٰذا وہی اس لائق ہے کہ اسے ہر مشکل میں پکارا جائے ،اپنی ہر حاجت اس سے طلب کی جائے۔ اسکی عطا کردہ سب نعمتوں پر اسی کا شکرا دا کیا جائے اور اسی کے نام کی نذر ونیاز ہو ۔ وہ کہیں سے غائب نہیں یعنی ہر جگہ اُسی کا حکم واقتدار ہے، پس وُہی اس لائق ہے کہ اُس سے خوف کھایا جائے اور اسکی رضا جوئی کیلئے اپنی سب صلاحتیں صرف کی جائیں ۔ انتہا درجہ کی عاجزی وذلت کا اظہار اسی کے حضور ہو اور محبت کی آخری حد اُسی کیلئے خاص ہو۔ سو وُہی ہر قسم کی عبادت کے لائق ہے ، اسکی عبادت میں کسی بھی ہستی کو شریک نہ کیاجائے کیونکہ کوئی نبی ، فرشتہ ، ولی ،بزرگ اور دیگر مخلوقات اسکی صفاتِ اُلُوہِیَّت میں سے کسی ایک صفت کے بھی مالک نہیں۔ جس طرح کائنات اسکے حکم کی تابع ہے اسی طرح ہر انسان پر واجب ہے کہ وہ اُس کا ہر حکم مانے ، اُس کا حکم ہی وہ قانون ہے جس کی اتباع سب پر لازم ہے، اس کے بنائے ہوئے قانون کے مقابلے میں کوئی قانون قابلِ قبول نہیں۔
امام الانبیاء مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ
علیہ الصلوٰة والسلام اَلْف اَلْف مرّ ة اللہ تعالےٰ کے سب سے محبوب اور افضل ترین بندے ہیں ۔ آپ ا تمام انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں ، عالمِ دُنیا میں آپ ﷺ کی نبوت کے ظہور کے بعداللہ تعالیٰ نے کسی فردِ بشر کو نبی بنا یا ہے اور نہ بنائے گا ، آپ ﷺ تمام انسانوں اور جنوں کی طرف معبوث کیے گئے ہیں ۔کوئی جن ،فرشتہ یا بشر کسی صفت میں آپ ا کی مثل نہیں ۔ آپ ﷺ کی نفیس ترین روحِ اقدس کے نُورِکا مل کے سامنے کُل ملائکہ اور جمیع کائنات کا نُورہیچ ہے ، آپ ﷺ کے نُورِ مُبین کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خاص نور سے جو نسبت ہے کائنات کے کسی دوسرے نور کو ایسی نسبت حاصل نہیں، آپ ﷺ کا نُورِ مُبین بشر یت کے بے نظیر قالب میں ظاہر ہوا۔ آپ ﷺ کی اعلیٰ صفات ِبشری میں دوسرے انسان صرف اَسماء (ناموں ) میں ہی مشابہت رکھتے ہیں ، انکی کیفیات میں کوئی بشر آپ ﷺ کی ہمسری نہیں کر سکتا ، عام انسانوں کے برعکس آپ ﷺ حیوانی شہوات سے مبرّا و منزّہ ہیں ، درحقیقت آپ ﷺ کا وجودِ مسعود نُور ومادّہ کے حسین ترین امتزاج کا ایسا شاہکار ہے جس کی کوئی مثال کائنات میں موجود نہیں، چنانچہ آپ ﷺ تمام مخلوقات سے اعلیٰ و اعظم ہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ ﷺ کے مبارک وجود سے بے شمار خرقِ عادت امور ظاہر فرمائے جنہیں معجزات کہاجاتا ہے، آپ ﷺ کے یہ تمام معجزات حق ہیں، مثلاً آپ ﷺ نے معراج کی رات جسم وروح کے ساتھ ساتوں آسمانوں اور عرشِ مُعلّیٰ کی حالتِ بیداری میں سیر کی ، اللہ تعالیٰ کے نُورِ خاص کا براہِ راست مشاہدہ کیا اور اس سے بالمشافہ کلام کرنے کا شرف حاصل کیا، کئی بار خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا، انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر کے انہیں دوبارہ جوڑ کے مہِ کامل بنا دیا ، اپنی مبارک انگلیوں سے پانی جاری فرما کر پورے لشکر کو سیراب کیا ، آپ ﷺ کی دعا سے ایک آدمی کی خوراک برابر کھانے میں اتنی برکت پیدا ہوگئی کہ بیسیوں آدمیوں نے سیر ہو کر کھایا ، اسی طرح ایک پیالہ دودھ میں اتنی برکت پیداہوئی کہ درجن سے زائد افراد نے سیر ہو کر دودھ پیا ، ایک نہایت کمزور اور دبلی پتلی بکری کے سوکھے تھنوں پر ہاتھ پھیرا تو اس سے اس قدر دودھ نکلا کہ لوگوں کی اک جماعت کے سیر ہونے اور بڑے برتن کے دوبارہ لبالب بھر لینے کے باوجود تھنوں میں دودھ باقی تھا ۔ آپ ا نے وحیِ ٔ الٰہی کی راہنمائی میں جو بھی پیش گوئی فرمائی وہ اپنے وقت پر سو فیصد سچ ثابت ہوئی ، جبکہ آپ ا کی بہت سی پیش گوئیوں کے پورے ہونے کا وقت قریب ہے ، مثال کے طور پر کُل عالم پر غلبۂِ اسلام یعنی عالمی خلافتِ اسلامیہ کا قیام ، امام مہدی کی عدل و انصاف پر مبنی حکومت ، تاریخِ انسانی کی عظیم ترین جنگ(مَلْحَمَةُ الْعُظْمٰی) ، دجّال کا فتنہ ، سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا آسمانوں سے زمین پر زندہ نزول ، یأجوج و مأجوج کا خروج، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ، قیامت کی ہولناکیاں ، جنت کے انعامات اور جہنم کی سزائیں وغیرہ ۔ آپ ا شافعِ محشر ہیں ، اِذنِ الٰہی سے اہلِ توحید کی شفاعت (سفارش) فرمائیں گے جو قبول کی جائے گی ۔ چنانچہ دنیا وآخرت دونوں میں آپ ﷺ ہی قائدِ اعلیٰ اور ہادیِٔ اعظم ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنا بے مثال ولازوال معجزہ قرآن کی شکل میں آپ کو عطا فر مایا ۔ قرآن کے کلمات کے ساتھ اسکے معانی بھی آپ اپر وحی کیے گئے ، جو آپ ﷺکی سُنَّتِ مُطَہَّرَہ کی شکل میں محفوظ ہیں ، پس قرآن وسنت اِک دُوجے کیلئے لازم وملزوم ہیں اور قرآن و سُنَّت ہی آپ ﷺکی لائی ہوئی کامل ہدایت ہے جو قیامت تک کیلئے کافی ہے ، اس کامل ہدایت کے بعد کسی ”نئی ہدایت” کی ضرورت اب ہے نہ آئندہ ہو گی ، آپ ﷺکی ہدایت کا وُہی مفہوم معتبر ہے جو آپ ﷺ کے ہدایت یا فتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مستند ذرائع سے ثابت ہے جبکہ اس فہمِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے محافظ و امین اُمَّت کے قابلِ فخر آئمة مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ ہیں ۔ آپ اسے دنیا و مافیہا سے بڑھ کر محبت شرطِ ایمان ہے، نیز آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم خصوصاًاہلِ بیت اطہار سلام اللہ علیہم اجمعین سے محبت جزوِ ایمان ہے۔
صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّنَامُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِہِ وَ صَحْبِہِ وَسَلَّمَ۔
درج بالا عقیدہ کا حامل ہر شخص مؤمن و مسلم ہے اور شفاعتِ نبوی کا مستحق قرار پاتے ہوئے بالآخر جنت کی لازوال نعمتوں میں داخل ہو کے رہے گا( انشا ء اللہ)۔