شجرہ مبارکہ
نبی اکرم ﷺاپنے حسب و نسب اورمحامدومحاسن میں تمام انسانوں سے اعلیٰ و اَولیٰ، افضل و اکمل اور انورو اطہر ہیں۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن(بھی) میں تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔[1]
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: میں اولین و آخرین (تمام انسانوں) سے معزز و مکرم ہوں اور اس پرمجھے کوئی غرور نہیں ہے۔ [2]
سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ عز و جل نے سیدنا ابرہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کو چن لیا، پھر سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو چن لیا، پھر بنو کنانہ میں سے قریش کو چن لیا، پھر قریش میں سے بنی ہاشم کو چن لیا اور بنی ہاشم میں سے مجھے چن لیا۔ [3]
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ نے سات آسمان بنائے اور ان میں سے سب سے اوپر والے آسمان کو اپنے لئے پسند فرمایاجب کہ سب آسمانوں میں اپنی جس مخلوق کو چاہا بسا دیا، پھر سات زمینیں پیدا کیں ، اس میں سے سب سے اوپر والی زمین کو منتخب فرمایا اور اس میں اپنی جس مخلوق کو چاہا بسا دیا۔پھر اس نے اور مخلوق پیدا کی اور اس میں سے بنی آدم کو چن لیا اور بنی آدم میں سے عربوں کو منتخب فرمایا۔عربوں میں سے قبیلہ مُضَرکو چن لیا، پھر مُضَر میں سے قبیلہ قریش کو منتخب فرمالیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو چنااور بنی ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا۔پس میں بہترین لوگوں سے بہترین لوگوں میں منتقل ہوتا رہا ہوں، جس نے عربوں سے محبت کی اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ [4]
نبی اکرم ﷺنجیب الطرفین ہیں،یعنی آپ کے آباؤ اجدادمیں سے کوئی ایسا شخص نہیں گزرا، جس کی ولادت کا سبب نکاحِ صحیح کی بجائے زنا یا غیر اسلامی نکاح ہو۔
سیدناعبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میں زمانۂ جاہلیت کے کسی بدکاری والے طریق سے پیدا نہیں ہوا ، بلکہ میں اسلامی طرزِ نکاح سے پیدا ہوا ہوں۔[5]
سیدناعلی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میں نکاحِ صحیح کے ذریعے پیدا ہوا ہوں ناں کہ بدکاری کے ذریعے،آدم (علیہ السلام) سے لے کر میرے ماں باپ کے میرے جننے تک،میرے نسب میں جاہلیت کے بدکاری کے طریقے کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ [6]
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ اللہ کے نزدیک تمام مخلوقات سے زیادہ معززومکرّم ابوالقاسم محمد عربی ﷺ ہیں۔ [7]
اِسنادی قوت و صحت کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺکے اطہرو اقدس شجرۂ نسب کے تین حصے ہیں۔پہلا حصہ متواتر و متفق علیہ ہے، جو کہ رسول اللہ ﷺسے عدنان تک پہنچتا ہے ۔ اس حصہ میں ماہرینِ انساب کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔[8]
متواتر و مجمع علیہ نسب شریف یہ ہے
محمد بن عبداللہ بن عبدالمُطّلِب بن ہاشِم بن عَبدِمَناف بن قُصَی بن کِلاب بن مُرَّہ بن کعب بن لُؤی بن غالِب بن فِہر بن مالِک بن نَضْر بن کِنانہ بن خُزَیمہ بن مُدْرِکہ بن اِلیاس بن مُضَر بن نِزاربن مَعَدّ بن عَدنان [9]
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ (١٦٤۔٢٤١ ھ) نے اپنے استاذِ مکرم امام محمد بن ادریس الہاشمی القرشی الشافعی رحمة اللہ علیہ (١٥٠۔٢٠٤ ھ) سے یہ متواتر شجرۂ نسب یونہی بیان کیا ہے۔ [10]
متقدمین و متاخرین کی تمام کتبِ سیرت وتاریخ میں امام المرسلین محمد عربی ﷺ کا نسب شریف ایسے ہی بیان کیا گیا ہے، عربوں کے انساب کے موضوع پر جتنی کتب راقم الحروف کی نظر سے گزری ہیں، ان سب میں یہی نسب شریف منقول ہے۔اس ضمن میں کتبِ انساب کی شہادت خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ خالصتاً اسی موضوع پر بحث کرتی ہیں۔اس موضوع پر لکھی گئی کتب جو راقم الحروف کی نظر سے گزری ہیں ان میں نَسْبِ قُرَیْش (ابو عبداللہ مصعب بن عبداللہ الزبیری ، متوفیٰ ٢٣٦ ھ) جَمْہَرَةُ نَسبِ قُرَیْش واَخْبَارُھا (زبیر بن بکّار متوفیٰ ٢٥٦ ھ )، اَلْمَعَارِف (ابو محمد عبداللہ بن مسلم ابن قتیبہ ، متوفیٰ ٢٧٦ ھ) ، اَنْسَابُ الْاَشْرَاف (احمد بن یحییٰ البلاذُری ،متوفیٰ ٢٧٩ھ) ، نَسْبِ عَدْنَان وَ قَحْطَان (المبرد، متوفیٰ ٢٨٥ ھ)، جَمْہَرَةُ اَنسَابُ الْعَرَب(ابو محمد علی بن احمد ابن حزم الاندلسی ، متوفیٰ ٤٥٦ ھ ) ، اَلْاَنْسَاب (ابو سعد السمعانی )، عُجَالَةُ الْمُبْتَدِیْ وَ فُضَالَةُ الْمُنْتَہِی فِی النَّسْب (الجازمی ، متوفیٰ ٥٨٣ ھ) ، نَہَایَةُ الْاَرَب فِی مَعْرِفَةِ اَنْسَابِ الْعَرَب(ابو العباس القنشقندی ) ، اَللُّبَاب فِی تَہْذِیْبِ الَانْسَاب(عزّالدین علی بن محمد ابن الاثیر ، متوفیٰ ٦٥٥ ھ) شامل ہیں، ان سب کتب میں نہ صرف امام المرسلین محمد عربی ا کا نسب شریف مذکور ہے بلکہ آپ کے قبیلہ قریش کا نسب مفصل طور پر بیان کیا گیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ قبیلہ قریش کے سبھی لوگوں کا نسب فِہر بن مالک میں جمع ہوجاتا ہے، نیز حجاز میں بسنے والے تمام عرب قبائل کا نسب نضر بن کنانہ میں جمع ہوجاتا ہے اور حجاز سے باہر مگر قرب و جوار میں بسنے والے قبائل کا نسب عدنان میں جمع ہوجاتا ہے۔
بعض مرفوع احادیث میں رسول اللہ ﷺنے خود اپنا اور اپنے قبیلہ کا نسب بیان فرمایا ہے:
سیدنا اشعث بن قیس الکِندی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں وفدِ بنو کِندہ کے ہمراہ آیا اور وہ (اہلِ وفد)مجھے اپنے سے سب سے افضل نہیں جانتے تھے،پھر بھی میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارا یہ گمان ہے کہ آپ ہم (بنو کِندہ) میں سے ہیں۔آپ ا نے فرمایا: ہم تونضر بن کنانہ کی اولاد ہیں۔[11]
سیدنا انس بن مالک اور سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ بنو کِندہ کے مردوں کا کہنا ہے کہ وہ (نبی ﷺ) ان کے قبیلہ میں سے ہیں، تب نبی ﷺنے فرمایا:یہ بات توعباس بن عبدالمطلب اور ابو سفیان بن حرب(رضی اللہ عنہما) کہا کرتے تھے تاکہ انہیں مدینہ میں داخلے کے وقت امان مل سکے،ہم اپنے آباء و اجداد کی نفی نہیں کرتے، ہم تو بنو نضر بن کنانہ میں سے ہیں۔ پھر آپ انے خطبہ ارشاد فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمُطّلِب بن ہاشِم بن عَبدِمَناف بن قُصَی بن کِلاب بن مُرَّہ بن کعب بن لُؤی بن غالِب بن فِہر بن مالِک بن نَضْر بن کِنانہ بن خُزَیمہ بن مُدْرِکہ بن اِلیاس بن مُضَر بن نِزار ہوں۔[12]
رسول اللہ ﷺکے نسبِ اطہر کا دوسرا حصہ عدنان سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام تک ہے۔نبی اکرمﷺ کاآلِ اسماعیل میں سے ہونا ماہرینِ انساب کے ہاں مجمع علیہ ہے، ان میں سے کسی بھی معتبر نُسّاب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ آپ آلِ اسماعیل میں سے نہیں ہیں۔ [13] زمانۂ جاہلیت کا عربی ادب ہو یا احادیثِ مبارکہ، تاریخی روایات ہوں یادوسرا اسلامی ادب، غرض تمام ذرائع علم سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ آلِ اسماعیل میں سے ہیں۔ نبی اکرم ﷺکے آلِ اسماعیل میں سے ہونے کا انکار اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ کہنا کہ سیدناموسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے، کیونکہ یہ کسی ایک تاریخی روایت کا انکار نہیں بلکہ مسلمات اوراخبارِ متواترہ کا انکار ہے۔ظاہر ہے اخبار متواترہ کا انکار کوئی احمق ہی کر سکتا ہے، کسی دانشمند سے ایسی بے ہودگی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔آلِ اسماعیل میں سے ہونا نبی اکرم ﷺ پر ہی موقوف نہیں، بلکہ آپ کے زمانہ کے عربوں کی بہت بڑی اکثریت آلِ اسماعیل میں سے تھی۔بعض ماہرینِ انساب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ بنو قحطان سمیت تمام عرب آلِ اسماعیل میں سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سیدنا اسماعیل (علیہ السلام ) کوابو العرب کے لقب سے یا دکیا جاتا ہے۔[14]
رسول اللہ ﷺکے نسبِ اطہر کا دوسرا حصہ عدنان سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام تک پہنچتا ہے ،ماہرینِ انساب اس حصۂ نسب کے بارے میں مختلف الرائے ہیں۔ اس حصہ میں چار سے چالیس تک پشتیں روایت کی گئی ہیں۔ امام ابو حاتم محمدبن حِبّان البُستیؒ (٢٧٠۔٣٥٤ ھ) نے اس بارے میںماہرین انساب کے متعدد اقوال بیان کیے ہیں۔[15] امام احمد بن علی بن حجر العسقلانی ؒنے بھی یہ مختلف اقوال فتح الباری میں جمع کئے ہیں۔[16]
تاہم جمہور محدثین و مؤرخین نے امام محمد بن اسحاق ؒکے قول پر اعتماد کیا ہے، جن میں امام محمد بن اسماعیل البخاری ؒ (١٩٤۔٢٥٦ ھ) ، امام محمد بن احمد الذہبی ؒ(٦٧٣۔٧٤٨ ھ) اور امام احمد بن علی بن حجر العسقلانی ؒ (٧٧٣۔٨٥٢ ھ) جیسے محققین و نقاد شامل ہیں۔[17]
امام محمد بن اسحاق ؒکی روایت کے مطابق عدنان سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام تک شجرۂ نسب یوں ہے
عدنان بن اَدَد بن مُقْوِّم بن ناحُوربن تارح (تیرح)بن یَعرُب بن یَشجب بن نابِت بن اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام [18]
رسول اللہ ﷺکے نسب شریف کا تیسرا حصہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے سیدنا آدم علیہ السلام تک پہنچتا ہے، یہ حصہ نہایت مخدوش اور متنازعہ ہے۔مؤرخین کے ہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کاسب سے زیادہ مشہور وہ نسب نامہ ہے جو امام محمد بن اسحاق ؒنے بیان کیا ہے ، وہ یوں ہے:
ابراہیم بن تارح (آذر) بن ناحور بن ساروغ بن راعو بن فالخ بن عیبر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح بن لمک بن متوشلخ بن اخنوخ (ادریس)بن یرد بن مہلیل بن قینن بن یانش بن شیث بن آدم علیہ السلام [19]
امام محمد بن اسحاق ؒسے منسوب ایک دوسری روایت میں عیبر کی بجائے عابر، مہلیل کی جگہ مہلائیل، قینن کی بجائے قینان اور یانش کی جگہ انوش مذکور ہے۔[20]
اسی طرح بعض دوسری روایات میں دوسرے ناموں کے تلفظ میں فرق ہے، جیسے تارح کے بدل تارخ، فالح کی بجائے فلاح ، لمک کی بجائے لامک اور قینن کی بجائے قنعان یا کنعان بھی وارد ہوا ہے۔[21]
بائبل کے حصہ عہد نامہ قدیم جسے یہودی تورات بھی کہتے ہیں، کی پہلی کتاب یعنی سفرِ تکوین (کتابِِ پیدائش) کے ابتدائی گیارہ ابواب میں سیدنا آدم علیہ السلام سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام تک پیدا ہونے والی نسلوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، عہد نامہ قدیم اور مذکورہ بالا تاریخی روایات میں نسب ِ ابراہیمی کی پشتوں اور ناموں میں کامل مماثلت ہے، فرق صرف زبان اور لہجے کا ہے۔جب عبرانی سے یونانی اور عربی میں یہ نام منتقل ہوئے تو لہجوں کے فرق کی وجہ سے بعض ناموںمیں ایک یا دو حروف کا فرق پڑ گیا، جب کہ کئی ناموں کا تولہجہ بھی یکساں ہے۔تقابل کے لئے بائبل (کتاب ِتخلیق : باب ٢ تا ١١) ملاحظہ کیجئے۔[22]
یہ کامل مماثلت ثابت کرتی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے شجرۂ نسب سے متعلق مذکورہ روایات اصلاً بنی اسرائیل سے مأخوذ ہیں، جیسا کہ امام ابولفدأ اسماعیل بن کثیر ؒنے صراحت کی ہے۔[23]
(23
ان اسرائیلی روایات میں حق و باطل کا التباس ایک یقینی امر ہے،ہمارے اس جزم ویقین کے اسباب درج ذیل ہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
[24]اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ط وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ ط لَا یَعْلَمُہُمْ اِلَّا اللّٰہُ ط
کیا تمہیں ان لوگوں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے تھے، جیسے نوح ، عاد اور ثمود کی قومیں اور ان کے بعد آنے والوں کے حالات ، جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی االلہ عنہ یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد فرمایا کرتے تھے: کَذَبَ النُّسَّابُوْنَ یعنی نُسّاب غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔[25]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا اشارہ اس طرف ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے سیدنا آدم علیہ السلام تک شجرۂ
نسب محفوظ نہیں۔اس رائے کی اک ٹھوس شہادت درج ذیل ہے
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا آدم اور سیدنا نوح علیہما السلام کے مابین دس قرون (نسلیں) گزری ہیں جب کہ وہ سب دینِ حق(اسلام) پر تھے۔[26]
شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ الحنبلی کے مطابق یہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا صحیح و ثابت قول ہے۔[27]
عہدنامہ قدیم کے مطابق سیدنا آدم اور سیدنا نوح علیہما السلام کے مابین آٹھ نسلیں تھیں، جبکہ اثرِصحیح سے ثابت ہوچکاہے کہ ان کے مابین نسلوں کی تعداد دس تھی۔
اما م ابوالفدأ اسماعیل بن کثیر الشافعی رحمة اللہ علیہ سفرِ تکوین(کتاب پیدائش) سے انساب وتواریخ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
و فی کون ھذہ التواریخ محفوظة فیما نزل من السمائِ نظر، کما ذکرہ غیر واحد من العلماء طاعنین علیہم فی ذالک ، والظاہر انہا مقحمة فیھا۔ذکرھا بعضھم علی سبیل الزیادہ والتفسیر،و فیھا غلط کثیر۔[28]
(27)
”ان تواریخ کا منزّل من اللہ ہونا محلِّ نظر ہے،جیسا کہ ان (اہلِ کتاب) پراس ضمن میں طعن کرنے والے بہت سے علماء نے بیان کیا ہے۔بلکہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ تواریخ ان کتب میں زبردستی داخل کی گئی ہیں۔ان(اہلِ کتاب) نے اضافے یا ”ان تواریخ کا منزّل من اللہ ہونا محلِّ نظر ہے،جیسا کہ ان (اہلِ کتاب) پراس ضمن میں طعن کرنے والے بہت سے علماء نے بیان کیا ہے۔بلکہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ تواریخ ان کتب میں زبردستی داخل کی گئی ہیں۔ان(اہلِ کتاب) نے اضافے یا تفسیر کے طور پر ان کا تذکرہ کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں۔”
چنانچہ علامہ حفظ الرحمٰن صدیقی سیوہاروی مذعومہ تورات سے سیدنا نوح علیہ السلام کا نسب نامہ تحریر کرنے کے بعد ارقام پذیر ہیں
اگرچہ مؤرخین اور تورات(سِفرِتکوین) نے اسی کو صحیح مانا ہے لیکن ہم کو اس کی صحت میں شک اور تردّد ہے، بلکہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ حضرتِ آدم علیہ السلام اور حضرتِ نوح (علیہ السلام) کے درمیان ان بیان کردہ سلسلوں سے زیادہ سلسلے ہیں۔[29]
(28)
معاملہ صرف نسلوں(پشتوں) کی تعداد کا نہیں بلکہ نسب نامہ میں مذکور ناموں کا بھی ہے، قرآن حکیم میں
صراحت ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام آزر تھا(سورة الانعام:٧٤)جبکہ اسرائیلی روایات کے مطابق اس کا نام تارح یا تارخ تھا۔اگرچہ مؤرخین نے اس کی مختلف تاویلات کی ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی قابلِ اطمینان نہیں ہے،مؤرخین کی یہ تاویلات بیان کرنے کے بعد علامہ حفظ الرحمٰن صدیقی سیوہاروی فرماتے ہیں
ہمارے نزدیک یہ تمام تکلفاتِ باردہ ہیں، اس لئے کہ قرآنِ عزیز نے جب صراحت کے ساتھ آزر کو ابِ ابراہیم (ابراہیم کا باپ)کہا ہے تو پھر محض علمائِ انساب اور بائیبل کے تخمینی قیاسات سے متاثر ہو کر قرآنِ عزیز کی یقینی تعبیر کو مجاز کہنے یا اس سے بھی بڑھ کر خواہ مخواہ قرآن عزیز میں نحوی مقدرات ماننے پر کو ن سی شرعی اور حقیقی ضرورت مجبور کرتی ہے؟[30]
(29)
جب بائبل میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ہی غلط بیان کیا گیا ہے، تو ایسے میں باقی اجداد کے ناموں کی صحت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔خصوصیت کے ساتھ ان ناموں کا عجمی ہونا ،جو قرآن و حدیث میں مذکور نہیں، ان کے فرضی و قیاسی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔کیونکہ ہماری تحقیق کے مطابق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے آباؤ اجداد خالصتاً عربی بولنے والے تھے۔جیسا کہ ہم نے مقدمہ میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اجداد کے بارے میں سب سے معتبر روایت ابو عبداللہ مصعب بن عبداللہ الزبیری من آل زبیربن العوام (م ٢٣٣ ھ) کی معروف کتاب نسب قریش میں بیان کیا گیا ہے، جو آباء ابراہیمی کے نہ صرف اصل عربی نام ذکر کرتا ہے بلکہ اس میں نسلوں کی تعداد بھی اقرب الی القیاس ہے۔ابو عبداللہ الزبیری نے دعویٰ کیا ہے کہ عرب ماہرین انساب کا اس نسب نامہ پر اجماع ہے۔ اس روایت کے مطابق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا شجرہ مبارکہ درج ذیل ہے:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام بن آزربن التاجر بن الشاجع بن الراعی بن القاسم بن یعبر بن السائح بن الرافد بن السائم(سام) بن نوح بن ملکان بن مثوب بن ادریس بن الرائدبن مہلیل بن قنّان بن الطاہر بن ھبة اللہ بن شیث بن آدم [31]
اس نسب نامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خالص عرب روایات پر مبنی ہے، جس میں اسرائیلی روایات کی دراندازی کا کوئی شائبہ نہیں کیونکہ اسرائیلی روایات اور اس روایت کے اسماء کا فرق صاف واضح ہے۔
غرض نبی اکرم ﷺ کا شجرہ مبارکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی برکات کا ثمرہ ہے۔عصرِ حاضر میں بعض متعصب مستشرقین آپ کے آل ابراہیم میں سے ہونے کا انکار کرتے ہیں، مگر ان کا انکار نصف النہار میں سورج کے وجود سے انکار کے مترادف ہے۔
عدنان
آل اسماعیل کے گل سرسبد جناب عدنان کا شمار تاریخ عرب کے ان خاص مشاہیر میں ہوتا ہے، زمانہ جاہلیت کے عرب شعراء جن کی عظمت و سطوت کے گن گایا کرتے تھے۔عدنان نہ صرف اپنی زندگی میں بہت بڑے قبیلے کے رئیس (سردار)تھے، بل کہ ان کی اولاد کو بھی دوام اور عروج حاصل ہوا۔آلِ عدنان وسطِ عرب میں آباد تھی ۔ظہورِ اسلام کے وقت حجاز، نجد، عمان، بحرین اور تہامہ میں بسنے والے قبائل عموماً آلِ عدنان ہی میں سے تھے۔عدنان کی شادی مِنھاد بنت لُھم سے ہوئی جس کے بطن سے اس کے دو بیٹے معدّ اور عکّ(الحارث) پیدا ہوئے۔
معدّ بن عدنان
معدّ بن عدنان کی شادی مُعانہ بنت جَوشَم سے ہوئی جس کے بطن سے اس کے ہاں دو بیٹے نِزار اور قُضاعہ پیدا ہوئے۔
نِزار بن معدّ
نِزار بن معد نے دو شادیاں کیں۔پہلی بیوی خَبیّہ بنت عکّ کے بطن سے مُضَراور اِیاد پیدا ہوئے، جبکہ دوسری بیوی نے اس کے دو بیٹوں ربیعہ اور انمار کو جنم دیا۔
مُضَر بن نِزار
مُضَر بن نِزار کی شادی حَنفا بنت اِیادسے ہوئی جس کے بطن سے اس کے دو بیٹے الیاس اور قیس عیلان(ناس) پیدا ہوئے۔
الیاس بن مُضَر
الیاس بن مُضَر کی شادی لیلیٰ بنت حُلوان سے ہوئی جس کا لقب خندف تھا۔لیلیٰ نے الیاس کے تین بیٹوں مُدرِکہ(عامر) ، طابِخہ (عمرو) اور قَمعہ(عمیر) کو جنم دیا۔ان تینوں کی اولاد ان کی ماںکی نسبت سے بنو خندف کے کے نام سے مشہور ہیں۔
مُدرکہ بن الیاس
مُدرکہ بن الیاس نے سلمیٰ بنت اسد سے شادی کی جس کے بطن سے اس کے دو بیٹے خُزیمہ اور ھُذَیل پیدا ہوئے۔
خُزیمہ بن مُدرکہ
خُزیمہ بن مُدرکہ نے بھی دو شادیاں کیں۔ ایک بیوی عَوانہ بنت قیس تھیں جن کے بطن سے نبی ﷺکے جد امجد کنانہ پیدا ہوئے جب کہ ان کی دوسری بیوی برّة بنت مُرّ کے بطن سے اسد، اسدہ اور ہُون پیدا ہوئے۔
کنانہ بن خُزیمہ
کنانہ بن خُزیمہ نے برّہ بنت اُدسے شادی کی جس کے بطن سے نضر بن کنانہ پیدا ہوئے۔کنانہ نے مزید دو نکاح کیے۔ایک ہالہ بنت سوید سے کیا جس سے حدال، سعد، عوف اور مجربہ نے جنم لیا۔جب کہ دوسرا فُکیہ بنت ھنی سے کیا جس کے بطن سے عبد مناة پیدا ہوئے۔
نضر بن کنانہ
نضر بن کنانہ نے عکرشہ بنت عدوان سے نکاح کیا جس سے ان کے تین بیٹے مالک ،یخلد اور صلت پیدا ہوئے۔
مالک بن نضر
مالک بن نضرکی شادی جندلہ بنت حارث ابن جندل سے ہوئی جس کے بطن سے فہر یعنی القریش پیدا ہوئے۔
القریش
تاریخ العرب میں جس شخص کے خانوادہ کو شہرتِ دوام اور بے نظیر عروج حاصل ہوا، وہ ہے فہربن مالک، جس کا اصل نام قریش تھا، فہر اس کا لقب تھا۔( فہر کا لغوی مطلب ہے پتھر، جس پتھر سے بادام وغیرہ کوٹے جائیں اُسے فہر کہتے ہیں)۔ بعض ماہرین انساب کہتے ہیں کہ اس کا اصل نام فہر اور قریش لقب تھا۔ امام عبدالرحمٰن السہیلی (م ٥٨١ ھ)نے قریش کی وجہ تسمیہ کے بارے کئی اقوال نقل کئے ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ قریش ایک بڑی مچھلی کا نام ہے جو چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے۔کیوں کہ قبیلہ قریش نے وسطِ عرب سے باقی سب قبائل کا خاتمہ کردیا تھا اس لئے انہیں قریش کہا جاتا ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ چونکہ قریش تجارت پیشہ تھے اور مال جمع کرنے پر حریص تھے اس لئے انہیں قریش کہا جانے لگا۔امام ابن ہشام (م ٢١٣ ھ) نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔[32]
قریش کی اولاد قُرَ شی کہلائی۔ سیّدنا محمد رسول اللہ ﷺ بھی قبیلہ قریش سے تھے۔ قریش یا فہر کی شادی لیلیٰ بنت حارث سے ہوئی جس کے بطن سے تین بیٹے پیدا ہوئے، جن کے نام یہ ہیں: غالب، محارب، حارث۔ ان کی ایک بیٹی تھی جندلہ بنت فہر۔
غالب بن فہر
غالب بن فہر کی شادی عاتکہ بنت یخلد سے ہوئی جس کے بطن سے دو بیٹے لُوَیّ اور تیم پیدا ہوئے۔
لوی بن غالب
لُوَیّ بن غالب کی دو بیویاں تھیں: ماریہ بنت کعب اور بُسرہ بنت غالب۔ ماریہ کے بطن سے لوی کے تین بیٹے کعب، عامر اورسامہ پیدا ہوئے جبکہ بُسرہ کے بطن سے لوی کا ایک بیٹا سعدپیدا ہوا۔
کعب بن لوی
کعب بن لوی کی پہلی شادی وحشیہ بنت شیبان سے ہوئی جس کے بطن سے کعب کے دو بیٹوں نے جنم لیا، جن کے نام مُرّة اور ہُصیص تھے۔جب کہ کعب کی دوسری شادی حبیبہ بنت بجالہ سے ہوئی جس کے بطن سے عدی بن لوی پیدا ہوا۔
مُرّة بن کعب
مُرّة بن کعب کی دوشادیاں ہوئیں پہلی ہند بنت سریر سے اور دوسری بنت سعد البارقیہ سے۔ ہند بنت سریر سے مرہ کے بیٹے کلاب پیدا ہوئے جبکہ دوسری بیوی بنت سعد البارقیہ سے دو بیٹے تیم (زُنیم)اور یقظہ پیدا ہوئے۔
کِلاب بن مُرّة
کِلاب بن مرہ کی شادی فاطمہ بنت سعد سے ہوئی، جس کے بطن سے کلاب کے دوبیٹے قُصَیّ اور زُہرہ پیدا ہوئے۔ اس کے بطن سے کلاب کی ایک بیٹی نُعم بنت کلاب پیدا ہوئی۔
قُصَیّ بن کلاب
قصی بن کلاب قبیلہ قریش کا بطل عظیم ہے۔ قصی بن کلاب کی شادی حُُبَّی بنت حُلیل الخزاعی سے ہوئی۔جس کے بطن سے قصی کے چار بیٹے عبد مناف، عبدالدار، عبدالعزیٰ ،عبد اور دوبیٹیاں تَخْمُر اور بَرَّة پیدا ہوئیں۔
غالب گمان یہ ہے کہ قصیّ بن کلاب سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوئے۔[33]
قصیّ کی نوجوانی میں بیت اللہ کی تولیت حلیل بن الخزاعی کے پاس تھی اور وہی مکہ کا رئیس و حاکم تھا۔ اُس نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ آئندہ ریاست ِمکہ اور تولیت کعبہ قُصَی بن کلاب کے ہاتھوں میں ہوگی کیونکہ وہ بنوخزاعہ سے زیادہ اہل و حق دار ہے۔ بعد میں خزاعہ نے اپنے رئیس حُلیل کی وصیت کو ماننے سے انکار کردیا اور قصی کے ساتھ ریاست ِمکہ کے لیے جھگڑنے لگے۔ یہاں تک کہ قُصی کے حامیوں اور مخالفوں میں شدید جنگ ہوئی جس میں آخر فتح قصی کے نصیب میں لکھی تھی۔ قصی بن کلاب نے منتشر قریش کو مکہ المکرمہ میں جمع کیا اور ان کے لیے مستقل رہائش گاہیں تعمیر کرائیں۔ اسی لیے قصی کو جامع القریش اور مُجمع القریش کہا جاتا ہے۔ یوں صدیوں بعد ریاست مکہ اور تولیت کعبہ دوبارہ بنواسماعیل کو مل گئی۔
قصی نے ریاست ِمکہ حاصل ہونے کے بعد ریاست کا انتظام و انصرام درست طریقے پر چلانے کے لئے متعدد اصلاحات کیں ، جن میں سے بعض یہ ہیں
دارُالنِّدوَة :
قصی بن کلاب نے مکہ المکرمہ کے باشندوں کے مسائل حل کرنے کے لیے باہم مشاورت کی طرح ڈالی اور اس مشاورت کے لیے باقاعدہ ایک مکان مستقلاً بنادیا گیا جسے دارالندوة کا نام دیا گیا۔ نِدوہ کا لغوی مطلب ہے مشورے کے لیے اجتماع۔ یہاں عوامی مسائل زیر بحث لائے جاتے اور ان کا حل تلاش کیا جاتا۔ مکہ کے ریاستی مسائل بھی یہیں حل کیے جاتے تھے۔
السِّقایة:
سقایہ کا لغوی مطلب پانی پلانا ہے۔ اس سے مراد ریاست مکہ کا وہ شعبہ ہے جو بیت اللہ کا حج کرنے والوں کو پانی پلانے کا انتظام کرتا تھا۔ حاجیوں کو پانی میں شہد یا دودھ وغیرہ ملا کر پلایا جاتا تھا۔ یقینا یہ رفاہِ عامہ کا قابل قدر منصوبہ تھا۔
الرِّفادة:
قصی بن کلاب نے حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لیے ایک مستقل فنڈ قائم کردیا تھا جس کا نام الرفادہ ہے۔ تمام قریش اپنا مال اس فنڈ میں جمع کراتے اور اس سے حاجیوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے تھے۔ یہ بھی رفاہِ عامہ کی ایک عمدہ مثال تھی۔
اللِّواء:
لواء کا لغوی مطلب ہے جھنڈا۔ قصی بن کلاب پہلا عرب ہے جس نے قومی شناخت کے لیے قومی پرچم متعارف کرایا جو عام طور پر صرف جنگوں کے دوران استعمال کیا جاتا تھا۔ جب قبیلہ قریش کسی دوسرے قبیلے کے خلاف جنگ کرنے کے لئے نکلتا تو ایک جھنڈا جوانوں کے کسی گروہ کے سپرد کیا جاتا کہ اسے ہر حال میں بلند رہنا چاہیے۔ چناں چہ وہ جوان پامردی سے اس جھنڈے کی حفاظت کرتے تھے اور اسے سر نگوں ہونے سے بچاتے تھے۔
الحِجابة:
بیت اللہ کی نگہداشت اور اس کے خزانے کی حفاظت کے لیے ایک شعبہ مخصوص کردیا گیا تھا جسے الحجابہ کہا جاتا تھا۔ صاحب الحجابہ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس کے دروازے کی کنجیاں صاحب الحجابہ کے سپرد کی گئی تھیں، وہی ان کی حفاظت کرتا تھا۔
قصیّ جب بہت بوڑھا ہوگیا تو اس نے ریاستِ مکہ کا انتظام و انصرام اپنے سب سے بڑے بیٹے عبدالدارکے سپرد کردیا، یوں دارالندوہ، رفادہ، سقایہ،حجابہ اور لواء کے محکمے بنو عبدالدار کو وراثتاً مل گئے۔
عبد مناف بن قصی
عبدمناف کا اصل نام مغیرہ تھا۔اس کی خوبصورتی کے باعث اس کا لقب قمرالبطحاء (یعنی وادیٔ مکہ کا چاند)پڑ گیا تھا۔ اس کی شادی عاتکہ بنت مرہ سے ہوئی جس کے بطن سے اس کے تین بیٹے ہاشم، عبدشمس اور مُطّلب پیدا ہوئے۔ جبکہ اس کی شادی بعد میں واقدہ بنت عامرالمازنیہ سے ہوئی جس کے بطن سے اس کا بیٹا نوفل پیدا ہوا ۔
ہاشم بن عبدمناف
ہاشم بن عبدمناف نے چھ شادیاں کیں جن سے ان کے چار بیٹے عبدالمطّلب (شیبہ)، اسد، اباصیفی، نضلہ اور پانچ بیٹیاں شفا، خالدہ، ضعیفہ، رقیہ اور حیہ پیدا ہوئیں۔
ہاشم کا اصل نام عمرو تھا، ان کا نام ہاشم اس لیے پڑا کہ انھوں نے حاجیوں کو شوربے میں روٹی کے ٹکڑے بھگوکر کھلائے تھے، جسے ثرید کہتے ہیں۔ چونکہ روٹی کے ٹکڑے کرنے کو ہشم کہتے ہیں اسی لیے ان کا نام ہاشم یعنی روٹی کے ٹکڑے شوربے میں بھگوکر کھلانے والا پڑگیا۔ ہاشم ہی و ہ شخص ہے جس نے قریش کے لئے سال میں دو تجارتی سفروں کی داغ بیل ڈالی۔ایک موم سرما میں یمن اور حبشہ کی جانب اور دوسرا موسم گرما میں شام کی جانب۔[34]
عبدالمطّلب بن ہاشم
عبدا لمطلب کی والدہ سلمیٰ بنت عمرو یثرب میں آباد قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجار سے تعلق رکھتی تھیں۔ عبدالمطلب کا اصل نام عامر تھا، جب پیدا ہوئے اس وقت ان کی چندیا میں چند سفید بال تھے۔ اسی مناسبت سے ان کا لقب شیبہ (بوڑھا) مشہور ہوگیا۔ تاہم ان کے نام عبدالمطلب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ان کے والد ہاشم کا انتقال ہو ا تو یہ ابھی نوعمر تھے۔ اپنی ماں کے ساتھ یثرب میں اپنے ننھیال (بنو نجار)میں رہتے تھے۔ ان کے چچا مُطّلب اپنے بھائی کی نشانی کے طور پر ان کی کفالت کی غرض سے انھیں اپنے ساتھ مکہ لے آئے۔ جب یہ مکہ پہنچے تو لوگ سمجھے کہ مُطّلب کوئی غلام خرید لائے ہیں۔ عربی میں غلام کو عبد کہتے ہیں چنانچہ لوگوں نے انھیں عبدالمُطّلب کہہ کر پکارا، بعد میں مکہ میں ان کا یہی نام مشہور ہوگیا۔
عبدالمطلب نے یکے بعد دیگرے چھ نکاح کیے، جن سے بارہ بیٹے حارث، زبیر، ابوطالب(عبد مناف)، عبدالکعبہ، عبداللہ، عبدالعزیٰ( ابولہب)، مغیرہ، خجل، حمزہ، ضرار، عباس اور مصعب(الغیداق) پیدا ہوئے، جبکہ چھ بیٹیاں اُمّ حکیم، بیضاء، اُمیمہ، ارویٰ، برہ اور عاتکہ پیدا ہوئیں۔
عدنان سے عبدالمطلب تک مذکورہ بالا شجرہ نسب کی تمام تفاصیل ابو عبداللہ مصعب بن عبداللہ الزبیری ( ١٥٦۔٢٣٦ ھ) کی کتاب نسب قریش سے لی گئی ہیں۔چند ایک ناموں کے اختلاف کے ساتھ یہ تفاصیل سیرت ابن ہشام میں بھی من و عن موجود ہیں۔
اُمّہاتُ النبی ﷺ
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ کا نسبِ اطہربلحاظ امہات بیان کر دیا جائے۔رسول اکرم ﷺکی والدہ ماجدہ آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب بن مُرّہ بن کعب بن لویّ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ کی والدہ برّہ بنت عبدالعزیٰ، ان کی والدہ ام حبیب بنت اسد، ان کی والدہ برّہ بنت عوف، ان کی والدہ قلابہ بنت حارث ، ان کی والدہ امیمہ بنت مالک، ان کی والدہ دبّہ بنت حارث اور ان کی والدہ بنت یربوع تھیں۔
[4] ابو نعیم الاصبھانی ، دلائل النبوة، صفحہ ٥٨۔٥٩، ابو بکر احمد بن حسین البیہقی،دلائل النبوة، جلد ١، صفحہ ١٧١۔١٧٢
[6] ابو نعیم الاصبھانی ، دلائل النبوة، صفحہ ٥٧، ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی ، المعجم الاوسط، ح ، مستدرک الحاکم
ابو محمد عبداللہ بن مسلم ابن قتیبہ ، المعارف، صفحہ ١١٧
احمد بن علی ابن حجر العسقلانی ، فتح الباری، جلد ٦، صفحہ ٦٥٥
محمد بن احمد الذہبی ،تاریخ الاسلام، جلد ٢، صفحہ ١٧،
ابو عبداللہ محمد بن ابو بکرابن قیم الجوزیہ الحنبلی ، زادالمعاد، جلد ١، صفحہ ۲۶
[9] ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری ، الجامع الصحیح ، جلد ٣، صفحہ ٥٤، کتاب المناقب، باب مبعث النبی
محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، جلد ١، صفحہ ۲۳
[12] محمد بن سعد ، الطبقات الکبریٰ، جلد ١، صفحہ ٢٣،
ابو بکر احمد بن حسین البیہقی،دلائل النبوة، جلد ١، صفحہ۱۷۴
ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری ، التاریخ الکبیر، جلد ١، صفحہ ١،
محمد بن احمد الذہبی ،تاریخ الاسلام، جلد ٢، صفحہ ١٩
احمد بن علی ابن حجر العسقلانی ، فتح الباری، جلد ٦، صفحہ ٦٦٧۔٦٦٨
ابو بکر احمد بن حسین البیہقی،دلائل النبوة، جلد ١، صفحہ ١٨٠،
احمد بن علی ابن حجر العسقلانی ، البدایة والنہایة، جلد ١، صفحہ۲۳۷
[22]www.bible.com
محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تاویل آیء القرآن، جلد ١٣، صفحہ٦٠٤
ابو القاسم عبدالرحمٰن السہیلی ، الروض الانف، جلد ١، صفحہ۳۲
عبدالرحمٰن بن محمد بن ادریس بن ابی حاتم الرازی ، تفسیر القرآن العظیم، رقم الحدیث:١٩٨٣، ١٩٨٩
محمد بن سعد، الطبقات الکبریٰ، جلد ١، صفحہ۴۲