قوتِ ذائقہ
انسان جب کوئی شے کھاتا پیتا ہے تو اپنے منہ میں اس کا ذائقہ محسوس کرتا ہے۔قوتِ ذائقہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔اگر خدا ناخواستہ یہ نعمت چھن جائے تو ہر شے بے مزہ اور پھیکی محسوس ہوتی ہے اور یوں اشیائے خوردونوش میں فطری رغبت ختم ہوجاتی ہے۔ اگرچہ انسان عموماًبھوک مٹانے کے لیے کھاتا پیتا ہے مگر قوتِ ذائقہ اشیائے خوردو نوش کو مرغوب بنا دیتا ہے۔ قوتِ ذائقہ کاکردار محض رغبت پیدا کرنا ہی نہیں بلکہ معدے اور دماغ کے متعدد کیمیائی مرکبات جو ہاضمے میں مدد دیتے ہیں، محض ذائقہ کی وجہ سے تحریک پاتے
ہیں۔
قوتِ ذائقہ کا تعلق انسانی منہ میں پائے جانے والے منابعِ ذائقہ یعنی ٹیسٹ بڈز کے ساتھ ہے۔منابع ذائقہ میں سے زیادہ تر زبان کی بالائی سطح پر پائے جاتے ہیں تاہم زبان کے علاوہ نرم تالو، اندرون گال، ایپی گلوٹس اور مجریٰٔ غذا یا فوڈ پائپ (ایسو فیگس) کی سطح پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ذائقے بیادی طور پر چار ہیں یعنی نمکین، میٹھا، کھٹا اور کڑوا۔تاہم جب مختلف ذائقوں والی اشیا کا آمیزہ جیسے کھانا اور شوربہ وغیرہ کھاتے ہیں تو ان سب ذائقوں کی آمیزش سے ایک پانچواں ذائقہ بن جاتا ہے ۔
منابعِ ذائقہ دراصل ذائقہ محسوس کرنے والے خلیات (ٹیسٹ ریسیپٹر سیلز) پر مشتمل ہوتے ہیں جو کہ مذکورہ بالا اعضائے جسم کے خارجی پرت یعنی ایپی ٹھیلیم میں پائے جاتے ہیں۔منابعِ ذائقہ باہم مل کر ٹیسٹ پیپیلے بناتے ہیں۔منابعِ ذائقہ کے خردبینی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باریک مگر چھوٹے چھوٹےتکلے نماشکل کے ریشوں پر مبنی ہوتے ہیں، ان ریشوں کو اصطلاحاً مائکرو وِلائی کہتے ہیں۔یہ تکلے نما ریشے اندر سے اعصابی خلیات یعنی نیورانز کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ ذائقے سے متعلق خاص نیورانز کو گسٹیٹری نروز کہا جاتا ہے جو کہ چھٹی، نویں اوردسویں کرینئل نروز کے ذریعے دماغ سے جڑے ہوتے ہیں۔ان کرینئل نروز کے نام علی الترتیب فیشیل نرو،
گلوسو فیرنجیل نرو اور ویگس نرو ہیں۔
ہر منبعٔ ذائقہ میں پانچوں قسم کے ذائقے محسوس کرنے کے خلیات پائے جاتے ہیں۔گویا زبان کا ہر حصہ تمام ذائقے محسوس کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔لہٰذا یہ مشہور تصور کہ زبان کے مخصوص حصے مخصوص ذائقوں کو ہی محسوس کرسکتے ہیں جدید سائنس نے غلط ثابت کردیا ہے۔
مختلف انسانوں میں ذائقہ محسوس کرنے کی قوت مختلف ہوتی ہے۔ بعض لوگ ذائقے محسوس کرنے کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے لوگ ان کے مقابلے میں حساس نہیں ہوتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مختلف انسانوں میں منابعِ ذائقہ کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔یہ تعداد 2000 سے 8000 تک ہوسکتی ہے۔منبعِ ذائقہ کے خلیات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ ایک منبع ٔذائقہ کے خلیات اوسطاً 10 دن تک زندہ رہتے ہیں اور اس کی جگہ نئے خلیات لے لیتے ہیں۔
جو شے بھی ہم کھاتے پیتےہیں ان میں مختلف کیمیائی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ جب یہ مرکبات لعاب میں شامل ہوتے ہیں تو لعاب کے ساتھ مل کر منابعِ ذائقہ کو تحریک دیتے ہیں۔ یہاں سے پیغام دماغ کو جاتا ہے اور وہ کھائی یا پی ہوئی شے کے ذائقے کی شناخت کرتا ہے۔مزید برآن ذائقہ مرغوب ہونے کی صورت میں دماغ کچھ مرکبات پیدا کرکے خون میں شامل کرتا ہے جو معدے میں ہاضمے کی رطوبات کے افراز کی تحریک پیدا کرتا ہے جس سے بھوک کا احساس شدید تر ہوجاتا ہے اور مطلوبہ شے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔اسی لیے ناپسندیدہ کھانے کی پیشکش پر بھوک مرجاتی ہے۔
ان تمام حقائق کوجاننے کے بعد یہ کہنا غلط نہیں کہ قوتِ ذائقہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ہمیں اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔
قوتِ ذائقہ حالتِ مرض میں شدید متأثر ہوتی ہے۔ ذائقے کے عوارض متعدد قسم کے ہیں جن میں سے نمایاں درج ذیل ہیں
1۔اے گیزیا
(Ageusia)
یہ عارضہ بہت ہی نادر ہے تاہم بعض اوقات پایا جاتا ہے خاص طور پر بڑھاپے میں یہ عارضہ دیکھا گیا ہے۔کسی بھی ذائقے کا محسوس نہ ہونا آگیزیا کہلاتا ہے۔
2۔ ڈسگیزیا
(Dysgeusia)
منہ کا بدمزہ ہونا جس سے ذہنی کوفت ہو ڈسگیزیا کہلاتا ہے۔ منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھنے سے یہ عارضہ لاحق ہوجاتا ہے، بخاروں میں بھی منہ کڑوا رہوجاتا ہے۔
3۔ ہائپو گیزیا
(Hypogeusia)
ذائقوں کا احساس ماند پڑ جانا مگر مکمل طور پر ختم نہ ہونا ہائپوگیزیا کہلاتا ہے۔ایسا عموماً نمونیا یا سانس کے امراض میں ہوتا ہے۔