2025-07-05

 

کیا قیامت والے دن اعمال ترازو سے تولے جائیں گے؟

ساجد محمود انصاری

قرآن حکیم کی متعدد آیات میں بیان ہوا ہے کہ قیامت کے روز انسانی اعمال تولے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ ن ﹰالْحَقُّۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُوْلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ

المؤمنون:102-103   

اور اس روز اعمال کا  وزن کیا جانا حق ہے، پس جن کی نیکیوں کا وزن بھاری ہوگا وہی فلاح پائیں گے اور جن کی نیکیوں کا وزن ہلکا ہوگا وہی اپنی جانوں کو گھاٹے میں ڈالیں گے جو ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

اُولٰۤـئِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ وَلِقَآئِهٖ فَحَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فَلَا نُقِيۡمُ لَهُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ وَزۡنًـا

الکہف: 105

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے، پس ان کے (نیک) اعمال اکارت گئے اور قیامت کے روزہم  ان اعمال میں کوئی وزن نہ پائیں گے۔

ہر عقیل و فہیم شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ وزن تو مادی اشیا کا ہوتا ہے جبکہ اعمال تو مادی اشیا نہیں ہیں پھر ان کے تولے جانے کا کیا مطلب؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ ز بان و بیان کا ایک انداز ہے۔ ہر زبان میں حقیقت اور مجاز کا استعمال معروف ہے۔  قرآن حکیم میں بھی استعارات و مجازات کا کثرت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔  جیسے ہم  اردو زبان میں کہتے ہیں کہ اس کی بات میں وزن ہے  یا کہا جاتا ہے کہ اس کے دلائل زیادہ وزنی ہیں۔ ظاہر کہ یہاں کہنے والے کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ باتوں یا دلائل میں مادی اشیا جیسا کوئی وزن پایا جاتا ہے، بلکہ یہاں وزن سےمراد یہ ہوتا ہے کہ فلاں بات یا دلیل عقل ومنطق کے زیادہ قریب ہے۔ قرآن حکیم میں اعمال میں وزن ہونے سے مراد یہ ہے کہ اعمال میں اخلاص کو ناپا جائے گا۔   جیسے کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ

الحج:37

اللہ تعالیٰ کو ان (قربانی کے جانوروں ) کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تم نے کتنے جانور ذبح کیے ہیں بلکہ اس کے نزدیک اصل اہمیت اس چیز کی ہے کہ اس عمل میں کتنا اخلاص اور خدا خوفی پائی جاتی ہے۔اگر سو جانور اللہ کی راہ میں ذبح کیے اور  دل میں تکبر اور نیت ریاکاری کی ہے تو ایک جانور کی قربانی کے برابر بھی ثواب نہیں ملے گا اور اگر صرف ایک جانور ذبح کیا  مگر دل عاجزی اور  اخلاص و للہیت سے بھرا ہوا ہے تواس ایک جانور کی قربانی سات سو یا اس سے بھی زیادہ جانوروں کی قربانی پر بھاری ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے انفاق ) کی مثال ایسے ہی کہ جیسے ایک دانے سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے اس کا اجر بڑھا دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں سات اور سو کا عدد عرب محاورہ کے مطابق کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح  گندم کےایک  دانے(بیج)  سے جو پودا اگتا ہے اس پر کثرت کے ساتھ بالیاں لگتی ہیں اور ہر بالی میں سینکڑوں دانے ہوتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گویا اس نے سینکڑوں روپے خرچ کیے ہوں، شرط صرف اخلاص ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی علمی وُسعت کی بنا پر جانتا ہے کہ کسی کے دل میں  کتنااخلاص ہے اور کونسا دل اخلاص سے محروم ہے؟

تمام عبادات میں بنیادی شرط اخلاص ہے، اخلاص کے بغیر تمام اعمال رائیگاں ہیں۔  ارشادِ باری تعالیٰ ہے

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاء

البیّنۃ : 5

اور انہیں تو صرف یہی حکم دیا گیا تھا  کہ وہ یکسو ہوکر پورے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی عبادت بجالائیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

إنَّ الله لا ينْظُرُ إِلى أجْسَادِکُمْ، ولا إِلى صُوَرِكمْ، وَلَكن ينْظُرُ إلى قُلُوبِكمْ وأعمالكم

صحیح مسلم

بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔

قرآن و سنت  سے ایسے بیسیوں دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں جن  سےثابت ہوتا ہے کہ اخلاص کے بغیر اللہ کی بار گاہ  میں کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔   پھر اخلاص کے بھی درجے ہیں۔ ہر شخص کااخلاص یکساں نہیں ہوتا۔ کبھی تو اخلاص اتنا جاندار ہوتا ہے کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانا بھی سارے کبیرہ گناہوں پر بھاری پڑجاتا ہے اور کبھی اخلاص کا درجہ  اتنا گرجاتا ہے کہ عین میدان جنگ میں اپنی جان قربان کرنا بھی رائیگاں جاتا ہے کیونکہ نیت میں فساد آجاتا ہے۔

پس جن آیات یا احادیث صحیحہ میں اعمال کے تولے جانے کا ذکر ہے ان میں میزان (ترازو) وغیرہ  کاتذکرہ مجازاً کیا گیا ہے۔ ان سب نصوص سے مراد اعمال میں اخلاص کا پیمانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے، اس سے کوئی مادی ترازو حقیقت میں مراد نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

ہمارے اس تیقن کا سبب یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ سے کسی ایک صحیح  حدیث میں بھی ذکر نہیں ہے کہ اعمال کسی مادّی ترازو میں تولے جائیں گے جس کے دو پلڑے ہیں اور ایک ڈنڈی ہے۔ اس سلسلے میں جو بھی مواد کتب ِتفسیر میں وارد ہوا ہے وہ یا تو موضوع روایات ہیں یا علما کے اقوال۔ ان میں سے کوئی بھی قول نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔

اب ذرا اس آیت پر بھی غور فرمالیں:

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ

الانبیا:47

 اور ہم قیامت کے روز انصاف کے ساتھ وزن کریں گے پھرکسی کے ساتھ بھی ظلم نہ ہوگا۔ اگر کسی کی نیکی رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگی  تو ہم اسے حاضر کردیں گے۔اورہم خود حساب کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ  سے بہت سے علما استدلال کرتے ہیں  کہ اعمال حقیقتاً  ترازو میں تولے جائیں گے۔کیونکہ نضع الموازین کا لفظی مطلب بنتاہے کہ ہم ترازو قائم کریں گے اور احادیث صحیحہ میں بھی میزان کا ذکر آیا ہے۔ اس لیے اس کے ظاہری معنیٰ کو ترجیح دی جائے گی کہ موازین سے مراد اصل ترازو ہیں۔

ہمارا ماننا یہ ہے کہ یہاں بھی ترازو کے الفاظ مجازاً  لائے گئے ہیں،یہ ایک  اسلوب بیان  ہے  جس میں  واضح کیا گیا ہے کہ کسی  کاکو ئی عمل ضائع نہیں کیا جائے گا۔ ہر انسان کی چھوٹی بڑی نیکی سامنے لائی جائے گی۔ تاہم نیکیوں کا وزن  خود اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر کریں گے کہ کس کی نیکی میں کتنا وزن ہے اسی لیے فرمایا  وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ  (اورہم خود حساب کرنے کے لیے کافی ہیں)۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قرآن حکیم میں کہیں بھی گناہوں کے تولنے کا ذکر نہیں ہے۔کسی صحیح حدیث میں بھی اشارہ نہیں ہے کہ گناہ بھی تولے جائیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ گناہوں کا حساب نہیں ہوگا۔  اعمال نامے میں ہر نیکی اور بدی لکھی جاتی ہے اور  یہ اعمال نامے ہر انسان کے ہاتھ میں حقیقتاً تھمائے جائیں گے۔ اعمال نامہ درحقیقت  زندگی کے امتحان کا رزلٹ کارڈ ہوگا ، جس میں کامیاب ہونے یا ناکام ہونے کی خبر دی جائے گی۔اس میں ہر نیکی کی رینکنگ لکھی ہوگی اور یہ رینکنگ اخلاص کی بنیاد پر کی جائے گی۔اسی طرح ہر بدی کی رینکنگ بھی لکھی ہوگی اورحساب کتاب کے بعد فائنل رزلٹ بھی بتادیا جائے گا۔

ھٰذَا کِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡکُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ اِنَّا کُنَّا نَسۡتَنۡسِخُ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ

 الجاثیہ: 29

یہ  ہمارا لکھا ہوا  (اعمالنامہ) تم پر حق واضح کردے گا ،بے شک  ہم لکھواتے جاتے تھے جو تم کیا کرتے تھے۔

پس اعمال کا لکھا جانا اور ہر شخص کو اس کا اعمالنامہ ملنا حق ہے۔  اسی کا نام حساب کتاب ہے۔اسی حساب کتاب کے بعد یا جنت کی لازوال نعمتیں  ملنے والی ہیں ہیں یا جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ  میں جلناہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم کی آگ سے بچا کر جنت کی ابدی نعمتوں داخل فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading