از قلم ساجد محمود انصاری
دجال کی طلسماتی و پراسرار شخصیت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ان گنت سوال رینگتے ہیں،وہ کون ہے؟ انسان ہے یا کوئی دوسری مخلوق؟ وہ کب سے زمین پر موجود ہے اور کب ظاہر ہوگا؟ اس کی غیر معمولی قوت و کرشموں کا کیا رازہے؟ اس کے اقتدار کے زمانہ میں امت مسلمہ کی کیا کیفیت ہوگی؟
دجال کا نام احادیث میں المسیح الدجال وارد ہوا ہے، ظاہر ہے کہ یہ دجال اسمِ ذات نہیں ہے بلکہ اس کے کردار کو بیان کرنے والا ایک صفاتی نام ہے۔تورات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خوشخبری سنائی تھی کہ وہ ان کے لیے ایک مسیحا (نجات دہندہ) بھیجے گا، وہ مسیحا سیدنا مسیح ابن مریم عیسیٰ علیہ السلام کی صورت میں مبعوث کے گئے مگر بنی اسرائیل(یہود) کی شومئی قسمت کہ انہوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مسیحا ماننے سے انکار کردیا اور ان کو قتل کرنے یا سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا۔اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ تاہم یہود آج بھی اپنے زعم میں اس مسیحا کا انتظار کررہے ہیں جس کا وعدہ ان سے تورات میں کیا گیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اشارتاً اور نبی ﷺ نے صراحتاً بیان فرمایا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کوقیامت کے زمانہ کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجیں گے۔ عیسائیوں کی اکثریت بھی یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ اب مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں اپنی مذہبی روایات کی روشنی میں ایک مسیحا کا انتظار کررہے ہیں۔
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک یہودی کو المسیح (مسیحا) بنا کر ظاہر کریں گے جو غیر معمولی کرشمے دکھائے گا۔ چونکہ وہ جعلی اور جھوٹا مسیح ہوگا اس لیے نبی ﷺ نے اسے المسیح الدجال یعنی جھوٹا یا دھوکے باز مسیحا کہا ہے۔ بظاہر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے دماغ میں آریفیشل انٹیلی جنس کی چپ نصب ہوگی اور وہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے تمام حیرت انگیز کرشمے دکھائے گا۔سائنسی دنیا میں ہونے والی تمام تر ترقی اور ٹیکنالوجی اس کے کنٹرول میں ہوگی اور وہ اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے ساری دنیا پر حکومت کرے گا۔واللہ اعلم
دجال کب سے زمین پر موجود ہے؟ اس سوال کا حتمی جواب ہمیں معلوم نہیں کیونکہ نبی ﷺ نے اس بارے میں کوئی واضح ہدایت فراہم نہیں کی۔حدیث تمیم داریؓ میں مذکور ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ایک جزیرے پر کسی پراسرار شخصیت سے ملاقات کی تھی، جس کے بارے میں نبی ﷺ نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اس کا حال دجال سے ملتا جلتا ہے۔ تاہم نبی ﷺ نے حتمی طور پر اسے دجال قرار نہیں دیا۔ ممکن ہے کہ شیطانی دنیا نے دجال کو تمثیلی انداز میں پیش کیا ہو۔دیگرقوی تر احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ دجال اصل میں اصفہان(ایران) میں بسنے والے یہودمیں سے ایک فرد ہوگا۔ ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے دجال کوئی جن ہو، مگر ہماری رائے میں احادیث سے اس خیال کی تائید نہیں ہوتی۔واللہ اعلم
رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں ایک شخص ابن صیاد رہتا تھا۔ ابن صیاد کانا تھا اور اس کے بارے میں مدینہ منورہ میں عجیب و غریب باتیں مشہور تھیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شک تھا کہ کہیں یہی دجال نہ ہو۔رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا شک دور کرنے کے لیے دجال سے ملاقات کرنے اور اس کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا۔نبی ﷺ نے ابن صیاد سے فرمایا کہ میں اپنے جی میں کوئی بات سوچتا ہوں، تم مجھے بتاؤ کہ میں نے کیا سوچا ہے۔ نبی ﷺ سورۃ الدُخان کی آیت سوچی۔ ابن صیاد پہلے تو الجھن کا شکار ہوکر سوچتا رہا پھر اس کے منہ سے نکلا ’’الدخ‘‘۔غرض ابن صیاد ٹھیک جواب نہ بتا سکا، تاہم اس کا جواب درست جواب کے قریب تر تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابن صیاد نامراد ٹھہرے گا۔یعنی اگر وہ دجال ہوتا تو ٹھیک جواب بتادیتا۔(جامع الترمذی: رقم 2249) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ دجال دل میں پیدا ہونے والے خیالات پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ اور یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یہ صلاحیت تقریباً حاصل کرچکی ہے۔
ابن صیاد سے متعلق حدیث میں ہمیں اشارہ ملتا ہے کہ دجال کب ظاہر ہوگا؟ رسول اکرم ﷺ نے جان بوجھ کر سورۃ الدخان کی آیت 10 ذہن میں سوچی تھی۔ یہ محض کوئی اتفاق نہیں تھا۔ سورۃ الدخان کی آیت 10 میں قیامت کی ایک نہات اہم نشانی بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کے مطابق قیامت کے قریب آسمان پر ایک ایسا دھواں ظاہر ہوگا کہ جسے سب دیکھ لیں گے اور جو لوگوں کے لیے عذاب یعنی تکلیف کا باعث بنے گا۔اس آیت مبارکہ میں ایک غیر معمولی ماحولیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
کرہ ارض پر بڑھتے ہوئے آتش فشانی عمل اور زلزلوں کی کثرت نے سائنسدانوں کو زمین کی اندرونی ساخت میں ہونے والی تبدیلیوں کو گہری نظر سے مطالعہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان مشاہدات و تجربات سے سائنسدان اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ آئندہ چند سالوں میں زمین پر آتش فشانی عمل بڑھنے کا خطرہ ہے، جس سے نہ صرف زلزلوں کی شدت میں اضافہ ہوگا بلکہ زمین کی آب و ہوا بھی شدید متاثر ہوگی۔ نبی ﷺ نے بھی قعرِ عدن (یمن) کے خوابیدہ آتش فشاں سے خوفناک آگ نکلنے کی پیش گوئی فرمائی ہے،(صحیح مسلم: رقم 2901) جس سے سائنسی مشاہدات کی مزید تائید ہوتی ہے۔
اگر زمین پر بہت سے آتش فشاں اکٹھے پھٹ پڑیں توان سے نکلنے ولا دھواں اور راکھ آسمان کو ڈھانپ لیں گے جس سے سورج کی روشنی یا تو ماند پڑجائے گی یا کافی مدت تک سورج بالکل دکھائی نہیں دے گا، جس سےطویل مدت تک رات چھائی رہے گی۔نبی ﷺ نے دجال کے بارے میں فرمایا کہ اس کا پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا۔ہماری دانست میں سورۃ الدخان آیت 10 میں اسی آتش فشانی دُخان (دھویں) کے بارے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جسے نبی ﷺ نے طویل دن کے استعارے میں بیان فرمایا ہے۔اگر ابن صیاد دجال ہوتا تو اسے اپنے زمانہ ظہور (دُخان) کے بارے میں علم ہوتا۔ غالباً اسی لیے نبی ﷺ نے اسے دُخان کے بارے میں آزمایا۔ واللہ اعلم
آتش فشانی دھویں میں سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس بہت زیادہ مقدار میں ہوتی ہے، یہ وہی گیس ہے جو سلفر (گندھک) کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ اگر ہوا میں بہت زیادہ مقدار میں موجود ہو تو سانس لینے میں بہت دقت ہوتی ہے،یہاں تک کہ آدمی سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھیپھڑے زخمی ہوجاتے ہیں۔نیز آنکھوں میں شدید جلن ہوتی ہے۔ سورۃ الدخان میں شاید دُخان سے منسلک انہی تکالیف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بعض لوگ دُخان کو اسموگ سمجھتے ہیں، مگر اسموگ کا دائرہ مخصوص علاقوں تک محدود ہوتا ہے جبکہ شدید آتش فشانی عمل سے جو دھواں پیدا ہوگا اس کے اثرات تمام روئے زمین کے انسانوں پر پڑیں گے اور اسموگ کے مقابلے میں شدید تر ہوں گے۔ العیاذاً باللہ
دُخان کا تعلق ایک بہت بڑی موسمیاتی تبدیلی سے بھی ہے۔ جب آتش فشانی عمل کے نتیجے میں آتش فشانی دھواں سورج کو ڈھانپ لے گا اور یہ کیفیت کافی طویل مدت تک جاری رہے گی تو اس کے نتیجے میں دنیا کا درجۂ حرارت یکدم کم ہوجائے گا۔یہ ایک نئے برفانی دور کا آغاز ہوگا۔ اس سے نہ صرف سردی بہت زیادہ بڑھ جائے گی بلکہ خوراک کی شدید قلت پیدا ہوجائے گی۔ برفانی دور کے آغاز کی وجہ سے موسم گرما میں پکنے والی فصلیں ناپید ہوجائیں گی، دوسرے لفظوں میں گندم، چاول،جو اور اکثر اناج کا وجود ہی دنیا سے مٹ جائے گا۔ بلکہ گمان ہے کہ مناسب درجہ حرارت نہ ملنے کی وجہ سے موسم سرما میں پکنے والی فصلیں بھی ناپید ہوسکتی ہیں۔ غرض ہر طرف قحط کا سماں ہوگا۔ جانور بھی چارہ نہ ملنے کی وجہ سے مر جائیں گے۔ تاہم اس صورتحال میں دجال دنیا کے تمام وسائل پر قابض ہوگا اور صرف انہی لوگوں کو خوراک مہیا کرے گا جو اسے خدا ماننے کے لیے آمادہ ہوجائیں گے۔ یہی اصل آزمائش ہوگی۔لوگ صرف دجال کے کرشمے دیکھ کر ہی اسے خدا نہیں مان لیں گے بلکہ خوراک حاصل کرنے کے لیے بھی وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوں گے۔
عالمی حالات بالخصوص ازرائیل ایران جنگ کے تناظر میں لگتا ہے کہ دجال کا ظہور اب زیادہ دور نہیں رہا۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ دجال 70000 یہودیوں کے ہمراہ اصفہان(ایران) سے نمودار ہوگا۔(صحیح مسلم: رقم 2944) اس حدیث کی روشنی میں لگتا ہے کہ پہلے ایران مغلوب ہوگا اور بعد میں امام مہدی کے ظہور اوران کے ہاتھ پر امت مسلمہ کی بیعت و اتحاد سےازرائیل بھی مغلوب ہوجائے گا۔ امام مہدی کے ظہور کے بعد دجال کا ظہور ہوگا اور وہ تل ابیب کی بجائے اصفہان کو اپنا ہیڈا کوارٹر بنائے گا۔واللہ اعلم
اس سلسلے میں 2027 خاصا اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال میں کامل سورج گرہن لگے گا جس کے باعث مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں عین دوپہر کے وقت رات کا سماں ہوگا۔حرمین شریفین میں دن کے وقت رات ہوجانا کوئی اچھا شگون نہیں ہوسکتا۔عین ممکن ہے کہ یہی دجال کے ظہور کا وقت ہو۔ واللہ اعلم
رہا یہ سوال کہ دجال کے فتنے سے کیسے بچا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے گناہوںسے مکمل اور سچی توبہ کریں اور سورۃ الکہف کی روشنی میں پہاڑوں کے غاروں میں پناہ لے لیں۔غاروں کے سوا دجال کے شر سے کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ اسی لیے رسول اکرم ﷺ نے دجال کے فتنے سے بچنے کے لیے سورۃ الکہف کی تلاوت کی ترغیب دی تاکہ ہم اس سورۃ کی تعلیمات کو یاد رکھیں اور ان پر عمل کریں۔ جس طرح اصحاب کہف نے ظالم بادشاہ دقیانوس کے شر سے بچنے اور ایمان بچانے کے لیے غار میں پناہ لی، اسی طرح ہمیں بھی دجال کے شر سے بچنے اوراپنا ایمان بچانےکے لیے غاروں میں پناہ لینا پڑگے گی۔ پُر تعیش زندگی کو خیرباد کہنا ہوگا اور زُہد والی زندگی گزارنا ہوگی۔اس کے سوا دجال کے فتنے سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔واللہ اعلم
مزیدتفصیلات کے لیے ہمارے درج ذیل مضامین ملاحظہ فرمائیں، یہ مضامین بنیادی طور انگریزی میں لکھے گئے ہیں، تاہم آپ اسی ویبسائٹ پر اردو زبان کا انتخاب کرکے ان کا اردو ترجمہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔