2025-07-08
اسرائیل مصنوعات

کیا پاکستان اسرائیل سے تجارت کرتا ہے؟

از قلم ساجد محمود انصاری

جب 14 مئی1948 کو صیہونی طاقتوں نے فلسطین پر قبضہ کرکے اسرائیل کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا۔آج تک پاکستان اپنے اس اصولی مؤقف پر قائم ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان  نےآج تک اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ قائم نہیں کیا اور نہ ہی اسرائیل کو اپنا سفارت خانہ پاکستان میں بنانے کی اجازت دی۔

 اس صورت حال میں پاکستان اور اسرائیل کے مابین کوئی تجارتی معاہدے یا روابط موجود نہیں ہیں۔ لہٰذا پاکستان اسرائیل سے کوئی تجارت نہیں کرتا۔امریکہ اور یورپ ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے آئے ہیں اور سیکورٹی کے نام پر اسے اسلحہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم غزہ میں جاری مسلم نسل کشی اپنی آخری حد کو چھو چکی ہے، اسرائیل نے بین الاقوامی رفاہی تنظیموں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے جس کی وجہ سے غزہ میں کھانے پینے کی اشیا نایاب ہیں۔ اس قبیح صورت حال  کے پیشِ نظر یورپی ممالک میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے بھی اسرائیل کی اس بربریت کے خلاف کھل کر آواز بلند کرنا شروع کردی ہے اور بعض یورپی ممالک نے اسرائیل سے تجارتی روابط منقطع کرنے کی دھمکی بھی دی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔

عوام الناس چونکہ تاریخ اور پیچیدہ سفارتی معاملات سے عموماً آگاہ نہیں ہوتے اس لیے بعض لوگ ان کی اس ناواقفیت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں موجود اسرائیلی ایجنٹ عوام الناس کو پاک فوج کے خلاف بھڑکانے کے لیے یہ پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ پاکستان اس معاملے میں یورپ سے پیچھے رہ گیا ہے اس نے یورپ کی طرح اسرائیل سے تجارتی روابط منقطع نہیں کیے۔ جبکہ حقیقت یہ  ہےکہ پاکستان کے تو اسرائیل سے تجارتی روابط کبھی قائم ہی نہیں ہوئے۔

یہی اسرائیلی ایجنٹ یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں اسرائیلی مصنوعات دھڑا دھڑ درآمد کی جاتی ہیں اور عوام ان اسرائیلی مصنوعات کو کثرت سے استعمال بھی کرتے ہیں۔ اس جھوٹ کی بنیاد پر ہی وہ اپنا یہ دعویٰ قائم کرتے ہیں کہ پاکستان اور اسرائیل کے مابین تجارت جاری ہے اور پاکستان نے اسرائیلی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ نہیں کیا۔

 ایک بار پھر جان لیجیے کہ پاکستان اسرائیل سے ایک روپے کا مال بھی نہیں خریدتا۔  اب رہیں وہ مصنوعات جنہیں اسرائیلی مصنوعات کہا جارہا ہے ذرا تحقیق کرلیجیے کہ کیا واقعی وہ اسرائیلی مصنوعات ہیں؟

مثال کے طور پر پیپسی کولا، کوکاکولا، میکڈونلڈ، کے ایف سی وغیرہ کے بارے میں عوام میں یہ منظم طور پر مشہور کیا گیا ہے کہ یہ اسرائیلی کمپنیاں ہیں، حال آن کہ ان میں سے کسی بھی کمپنی کا صدر دفتر اسرائیل میں نہیں ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ تشدد آمیز رویہ کے ایف سی کے بارے میں اپنایا گیا جب کہ ایساکرنے والے یہ تک نہیں جانتے کہ کے ایف سی کن الفاظ کا مخفف ہے اور اسے یہ نام کیوں دیا گیا ہے؟ کے ایف سی کینٹکی فرائیڈ چکن کا مخفف ہے اور اس کا صدر دفتر امریکہ کی ریاست کینٹکی میں ہے۔ اسی طرح پیسی کولا(نیویارک امریکہ)، کوکاکولا (جارجیا امریکہ)، میکڈونلڈ(شکاگو امریکہ) بھی امریکی  ملٹی نیشنل کمنیاں ہیں۔نیسلے کا صدر دفتر سؤٹزرلینڈ میں ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا سب کمپنیاں اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے قائم ہوچکی تھیں۔ کولگیٹ  ٹوتھ پیسٹ کی مثال لے لیجیے، یہ کولگیٹ پامولو  کمپنی کی پراڈکٹ ہے  جوکہ اسرائیل کے قیام سے 142 سال پہلے 1806 میں قائم کی گئی تھی۔نیسلے 1867، کوکاکولا 1886، پیپسی کولا 1898، کے ایف سی 1930 اور میکڈونلڈ 1940 سے اپنے برانڈ بیچ رہی ہیں۔   ان کمپنیوں کے حصص دنیا میں کسی بھی خطے، مذہب یا نسل کے لوگ خرید اور بیچ سکتے ہیں۔ یہ اسرائیلی برانڈز نہیں ہیں۔ اسی لیے پاکستان میں ان مصنوعات کی خیدوفروخت کی اجازت ہے۔ پاکستان میں  عوام کو ہر قسم کے شکوک سے بچانے کے لیے 2020 میں امپورٹ پالیسی آرڈر جاری کیا گیا جس میں اسرائیلی مصنوعات کی خریدو فروخت کو پاکستان میں جرم قرار دیا گیا ہے۔

ملٹی نیشل کمپنیوں کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اگرچہ ابتدا میں کسی  ایک ملک سے متعلق ہوسکتی ہیں مگر ان کی تجارت کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی بھی رنگ، مذہب یا نسل کے لوگ ان کے ساتھ کاروبار کرسکتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ مذکورہ بالا کمپنیوں کے مالک صرف یہودی ہیں درست نہیں ہے۔ اگر ملٹی نیشل کمپنیوں کی مصنوعات کی خریدوفروخت کو شرعاً ممنوع قرار دے دیا جائے تو آپ کسی بھی جدید سہولت سے استفادہ نہیں کرسکتے۔موبائل، کمپیوٹر اور دیگر  برقی آلات،  انٹر نیٹ، کھانے پینے کی محفوظ شدہ اشیا وغیرہ سب ممنوع قرار پائیں گے اور ان کے ذریعے اربوںروزی کمانے والوں کی روزی بھی حرام قرار پائے گی۔ اس لیےہر مسئلے کا حل جذبات کے ذریعے نہیں بلکہ عقل و خرد کے ذریعے تلاش کریں۔ یاد رکھیں پاکستان میں اسرائیلی پراڈکٹس دستیاب نہیں ہیں کیونکہ یہاں اسرائیلی پراڈکٹس بیچنا قانوناًجرم ہے۔اس لیے آپ شوق سے ان برانڈز کا بائیکاٹ کریں، مگر  ہندو بت پرستوں کے خلاف جنگ میں مصروف مسلح افواج کو طعنے دینے کی بجائے ان کا ساتھ دیں اور ملک دشمن عناصر کے پراپیگنڈے سے بچیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading