2025-07-08

 

کیا موسیقی حرام ہے؟

از قلم ساجد محمود انصاری

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ

سورۃ لقمان: 6

اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو دور کرنے کے لیے اپنی جہالت کے سبب لھوالحدیث خریدتے ہیں اور قرآنی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔

تفسیر الطبری میں مذکورہ آیت کے ذیل میں مذکور ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے گانے بجانے والی لونڈی کو لھو الحدیث قرار دیا ہے۔جامع الترمذی میں بھی اسی مضمون کی حدیث منقول ہے۔(رقم 3499)

اسی ضمن میں سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام کے قول کا مفہوم یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے کسی سردار نے اپنے تئیں اہل ایمان کو پُھسلانے کے لیے ایک خوبصورت مُغَنِّیہ (گلوکارہ) خریدی جو رات کو بیت اللہ کے پاس گیت گایا کرتی تھی۔ادھر مسلمان بیت اللہ میں نماز پڑھا کرتے اور ادھر وہ مُغَنِّیہ اپنے سازو سارنگی سے موسیقی کے مدھر  سُر بکھیرنے لگتی۔ یوں کفار مکہ نماز میں پڑھی جانے والی آیات کا مذاق اڑاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں  کفار مکہ کے اسی طرزِ عمل پر شدید تنقید کی ہے۔

اسی بنا پر سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام، سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم نے غنا یعنی گانے بجانے کو لھوالحدیث شمار کیا ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام کے تین شاگردوں امام عکرمہؒ،  امام سعید بن جبیرؒ اور امام مجاھدؒ کا قول بھی یہی ہے۔ گویا قرآن، حدیث، اہلِ بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رُو سے وہ گانا بجانا یقینی طور پر حرام ہے جسے قرآن میں لھو الحدیث سے تعبیر کیا گیا ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری ؒ  نے فیض الباری شرح صحیح البخاری میں صراحت کی ہے کہ عرب محاورہ میں مُغنّی اس گانے بجانے والے کو کہا جاتا ہے جو مختلف انداز میں سُرتال ملا کر فواحش پر ابھارتا ہے، یا صریحاً فواحش پر مبنی گیت گاتا ہے۔

(فیض الباری، جلد 2، صفحہ 463)

پس ایسا گانا بجانا یقینا حرام ہے خواہ اس کے لیے آلات موسیقی استعمال کیے جائیں یا نہ کیے جائیں۔ تاہم عموما ایسے مغُنّی  اپنے گیت کو مزید پُر کشش اور مؤثر بنانے کے لیے آلات موسیقی کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ اس لیے رسول اکرم ﷺ نے بالعموم آلات موسیقی کا استعمال بھی ممنوع قرار دے دیا ہے۔جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے:

سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور طبلہ (ڈھول) حرام کردیا ہے۔

(مسند امام احمد: 2476، سنن ابو داؤد: رقم 3696)

سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے۔میری امت کے کچھ لوگ غرورو تکبر اور کھیل تماشے میں رات گزاریں گے اور صبح ہوگی تو وہ بندر اور خنزیر بن چکے ہوں گے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو حلال ٹھہرایا ہوگا، انہوں نے آلات موسیقی سے لطف اٹھایا،  شراب پی، سود کھایا اور ریشم کا لباس پہنا ہوگا۔

(مسند امام احمد: رقم 23176)

سیدنا ابو مالک الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بدکاری، ریشم ، شراب اور گانے بجانےکو حلال قرار دے دیں گے۔پھر ایسا ہوگا کہ ایسے لوگوں کا ایک گروہ کسی پہاڑ کے دامن میں خیمہ زن ہوگا۔ان کا یک چرواہا شام کو ان کے پاس اپنی کسی حاجت کے لیے آئے گا تو وہ اسے(ٹالنے کے لیے) کہیں گے کہ کل آنا۔تب اسی رات اللہ تعالیٰ اس پہاڑ کو ان پر گرادیں گے جبکہ انہی جیسے دوسرے لوگ قیامت تک کے لیے بندر اور خنزیر بنا دیے جائیں گے۔

(صحیح البخاری: رقم 5590)

سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ (رقاصہ کے پاؤں میں باندھے جانے والے) گھنگرو شیطانی آلات موسیقی میں سے ہیں۔

(صحیح مسلم: رقم 2114)

سیدنا قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب اور طبلہ و طنبورہ حرام کردیا ہے۔

(مسند احمد: رقم 15560)

سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور ہدایت بناکر بھیجا ہے اور میرے رب عزّ و جل نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آلاتِ موسیقی اور بانسریاں، بت، صلیب اور جاہلیت کے تمام نشان مٹادوں۔

(مسند احمد: رقم 22663)

مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہے کہ عربوں کے ہاں مُغنّیات (گانے بجانے والیاں) یا مُغَنّی (گانے والے بجانے والے مرد)  یعنی سنگرز گانے بجانے کے جو آلات استعمال کرتے تھے رسول اکرم ﷺ نے ان سے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے اور گانے بجانے والے اس عمل کو شدید ناپسند فرمایا ہے، کیونکہ یہ  دل میں نفاق پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالی ٰ کی یاد سے غافل کرتا ہے۔

تاہم احادیث صحیحہ کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے بچوں  کے لیے بعض  آلاتِ موسیقی  کی اجازت مرحمت فرمادی تھی۔ گویا اُن کی حیثیت بچوں کے کھلونوں کی سی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ان کے ہاں عید کے روز تشریف فرما تھے اور انصار کی دو بچیاں ان کے پاس جنگ بُعاث کے ترانے گارہی تھیں،اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے اور یہ سب دیکھ کر فرمانے لگے کہ تم یہ شیطانی ساز کیوں بجا رہی ہو۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا کہ اے  ابوبکرؓ ان سے درگزر کرو۔ بے شک ہر قوم کے لیے عید کا دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔

(صحیح البخاری: رقم 3931)

سنن النسائی (رقم 1593) میں وارد اسی مضمون کی صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ وہ بچیاں دف  بھی بجا رہی تھیں۔ گویا نبی ﷺ نے  ان بچیوں کو دف بجانے کی اجازت مرحمت فرمادی تھی۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے تعجب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے وقت آلات موسیقی کی ممانعت شائع ہوچکی تھی۔تاہم مذکورہ حدیث میں اشارہ ہے کہ بچوں کے لیے یہ اجازت  بھی عام نہیں ہے، بلکہ خوشی کے ایام کے ساتھ مخصوص ہے۔

بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے شادی بیاہ کے موقع پر بھی دف بجانے کی اجازت عطا فرمائی تھی بلکہ ایک حدیث میں تو نبی ﷺ نے دف کے ساتھ گیت گانے کو جائز نکاح کی علامت قرار دیا ہے۔

سیدنا محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ حلال اور حرام نکاح میں فرق کرنے والی شے دف اور گیت ہیں۔

اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن کہا ہے۔

(جامع الترمذی: رقم 1088، سنن النسائی: رقم 3369)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح کا اعلان کرو اور نکاح مسجد میں کیا کرو اور نکاح کے موقعہ پر دف بھی بجایا کرو۔

اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے حسن کہا ہے۔

(جامع الترمذی: رقم 1089)

ان احادیث  سے مفہوم ہوتا ہے کہ شادی بیاہ ، عید تہوار اور دیگر خوشی کے مواقع پر دف بجا کر خوشی  کااظہار کرنا جائز ہے۔  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں ایک بار کسی مکان کے پاس سے گزرے تو وہاں سے دف کی آواز سنائی دی۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے  ان سے دریافت کیا کہ یہ دف کی آواز کیسی ہے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ اس مکان میں رسمِ ختنہ کی تقریب منعقد ہوئی ہے، اس لیے اس خوشی کے موقعہ پر دف بجایا جارہا ہے۔اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے۔

(لسان العرب، دیکھیے عزف،  جلد 9، صفحہ244، دار صادر بیروت لبنان)

اس واقعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ دف کی اجازت دوسرے آلات موسیقی کی ممانعت کے بعد دی گئی تھی، گویا دف اور اس جیسے آلات ممانعت سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم

آلاتِ موسیقی بنیادی طور پر تین قسم کے ہیں:

۱۔ منہ سے بجانے والے آلات جیسے باجا اور بانسری انہیں عربی میں المعازف کہا جاتا ہے

۲۔ چھڑی سے بجانے والے آلات جیسے  ڈھول

۳۔ ہاتھوں کی ہتھیلیوں یا انگلیوں  سے بجانے والے آلات جیسے دف، اِکتارا اور گٹار

پہلی دونوں قسمیں سنت متواترہ کی رُو سے حرام ہیں جبکہ آخری قسم بعض اوقات مباح ہوتی ہے ،بعض اوقات مکروہ اور بعض اوقات حرام۔ اگر آخری قسم کے آلات بجانے سے کسی کو اذیت نہ پہنچے تو خوشی کے موقعہ پر  ان کا بجانا مباح ہے اور اگر ان سے کسی  عمر رسیدہ شخص یا مریض کو اذیت پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ان کا بجانا مکروہ ہے۔ بعض صوفیائے کرامؒ نے جس غنا و سماع کی اجازت دی ہے اس کا تعلق اسی تیسری قسم سے ہے۔محقق محدث علامہ انور شاہ کشمیری ؒفرماتے ہیں:

ونَقَل العيني رحمه الله تعالى في «شرح الكنز» عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى في: باب ردّ الشهادة حُرْمَةُ التغني مطلقًا، ولي جَزْمٌ بأنه ليس نَفْيًا للأصل، بل بِحَسَب الأحوال

(فیض الباری، جلد 2، صفحہ 463)

ترجمہ: اور علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ نے  الکنز(کنزالدقائق) کی شرح میں  امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول باب رد الشھادۃ میں نقل کیا ہے جس میں انہوں نے غنا کو مطلقاً حرام کہا ہے، تاہم مجھے یقین ہے کہ یہ ممانعت ہر حال میں نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار گانے یا سننے والے کے احوال پر ہوتا ہے۔

قرآن کریم کو کسی بھی قسم کے آلات موسیقی کے ساتھ پڑھنا حرام ہے۔ اسی طرح اذان، نماز یا قرأت  کے وقت کسی بھی قسم کی موسیقی  جائز نہیں۔ ایسا انسانی کلام جو نثر کی شکل میں پڑھنا ممنوع ہے اسے کسی بھی حال میں شعر کی شکل میں گانا بھی جائز نہیں ہے۔جیسے عشقیہ اشعار یا شراب کی تعریف پر مبنی اشعار وغیرہ سوائے اس کے کہ عشقیہ اشعار صرف اپنی بیوی یا شوہر کو خلوت میں سنانا مقصود ہو۔واللہ اعلم بالصواب

ہماری رائے یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بنائی جانے والی نشید یا نظم وغیرہ میں اگر دف، اکتارا، گٹار یا اس سے ملتے جلتے کسی آلۂ موسیقی کا استعمال کیا گیا ہو تو اس پر سیخ پا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس بارے میں نرم  اور مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔ واللہ اعلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading