سراج منیر
سِراج مُنِیر ﷺ
از قلم ساجد محمود انصاری
رسول اکرم ﷺ کےمقام و مرتبہ اور عظمت و فضیلت کا حقیقی علم تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کو حاصل ہے، تاہم رب کریم نے ہمیں اپنے محبوب نبی ﷺ کی عظمت و فضیلت کے یک گونہ ادراک کے لیے قرآن حکیم میں متعدد اشارات فرمادئیے ہیں جن پر غوروفکر کرکے ہم اپنے نبی ﷺ کی کسی حد تک معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔بے شک رسول اکرم ﷺ کے اوصافِ حمیدہ اور فضائل عظیمہ اس قدر زیادہ ہیں کہ ضخیم کتب بھی ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس مختصر مضمون میں رسول اکرم ﷺ کے ایک وصف سراج منیر پر گفتگو کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰاَ یُّھَاالنَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا
وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذنِہِ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا
سورۃ الاحزاب: آیت 45-46
اے نبی بے شک ہم نے آپ کو (حق کی) گواہی دینے والا، خوشخبری سنانے والا،خبر دار کرنے والا، اپنے رب کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والا اور روشن کرنے والاچراغ بنا کر بھیجا ہے۔
عربی زبان میں سراج کا مطلب ہے چراغ ، جبکہ منیر کا مطلب ہے روشن کرنے والا۔ منیر کابامحاورہ مطلب ہوا روشنی بانٹنے والا کہ جس سے دوسرے روشنی حاصل کریں۔عربی زبان کا گہرا شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ منیر وہی ہستی ہوسکتی ہے جو خود سراپا نور ہو۔ جو خود نور نہ ہو وہ منیر نہیں ہوسکتا۔ پس اس آیتِ کریمہ کی رو سے رسول اکرم ﷺ سراپا نور تھے۔اگرچہ سراجِ منیر سے مجازاً نورِ ہدایت بھی مراد لیا جاسکتا ہے مگر قریب کے معنیٰ کو بغیر کسی قرینہ صارفہ کے ترک کرکے دور کے معنیٰ مراد لینا زبان و بیان کے اسلوب کے خلاف ہے۔ قرآن و سنت میں ایسی کوئی شئے نہیں جو سراج منیر میں سراپا نور ہونے کے معنیٰ کو منفی کرسکے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں خود نبی ﷺ سے کہلوایا گیا ہے کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں تو پھر آپ ﷺ نورِ مجسم کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ انسان تو مٹی سے بنا ہوا ہے؟
جان لیجیے کہ انسان جسم اور روح کے مجموعے کا نام ہے۔روح کے بارے میں اکثر علمائے اسلام کی رائے یہی ہے کہ روح ایک لطیف نورانی جسم ہوتا ہے جو انسانی بدن میں بالکل ایسے ہی سرایت کیے ہوتی ہے جیسے گلاب کی پتیوں میں عرقِ گلاب اور دہکتے انگارے میں آگ سرایت کیے ہوتی ہے۔
دو الگ جسموں کی بعض مشترک صفات کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے یہ دونوں جسم لازماً یکساں نوعیت کے ہیں۔ مثلا جمادات، نباتات اور حیوانات سبھی مادے سے بنے ہوئے ہیں مگر ان تینوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خنزیر، ہاتھی اور اونٹ میں پائے جانے والے مشترک اعضا ، عادات اور خصوصیات کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ تینوں جانور ایک جیسے ہیں۔ پھر انسانوں اور جانوروں کی بہت سی صفات و عادات مشترک ہیں مگر تنہا عقل کی خصوصیت انسان کو سب حیوانات سے ممتازو مکرم بنا دیتی ہے۔
انسانوں میں بھی ظاہری یکسانیت کے باوجود حفظِ مراتب پایا جاتا ہے۔ کفارِ مکہ اپنی کافرانہ نظروں سے رسول اکرم ﷺکو دیکھتے تو انہیں لگتا تھا کہ یہ ہماری طرح کھاتے پیتے، شادی بیاہ کرتے اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہمارے جیسے ایک عام سے انسان ہی تو ہیں، اس لیےان کی اطاعت کیوں قبول کریں۔(معاذاللہ) یاد رکھیے کہ رسول ﷺ کو دیکھنے کا یہ زاویۂ نظر خالصتاً کافرانہ ہے۔ اسی زاویۂ نظر کے ردّ میں نبی ﷺ سے کہلوایا گیا کہ ہاں میں ظاہری طور پر تو تمہی جیسا دکھائی دیتا ہوں مگرمیری خصوصیت یہ ہے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے۔
نبی ﷺ پر وحی کے وقت جو کیفیت طاری ہوتی تھی احادیث میں اس کا کسی قدر بیان موجود ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے وحی کا تحمل کوئی آسان کام نہیں ہے، اگر نبی ﷺ انبیا کے سردار ہونے کے باوجود نزولِ وحی کے وقت مشقت میں سے گزرتے تھے تو عام انسان کے لیے تو وحی کا تحمل ممکن ہی نہیں۔لہٰذا اس ایک بنیادی جوہری فرق کی نشاندہی کردی گئی، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس فرق کے سوا نبی ﷺ اور عام انسان میں کوئی دوسرا فرق ہے ہی نہیں۔یوں سمجھیے کہ جیسے نباتات کو جمادات سے ممتاز کرنے والی بنیادی صفت قوتِ نمو (گروتھ)ہے، پھر نباتات اور حیوانات میں بنیادی فرق ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہونے کی صفت ہے اور حیوانات اور انسان میں بنیادی فرق عقل کا ہے، اسی طرح عام انسان اور نبی میں بنیادی فرق وحی کا ہے۔ یعنی نبی کی روح اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ وہ اس کلامِ باری کا تحمل کرسکتی ہے جو مضبوط پہاڑ پر نازل کردیا جاتا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔حقیقت یہ ہے کہ ایک گدھے اور انسان میں جتنا فرق ہے اس سے ہزاروں گنا زیادہ فرق ایک عام انسان اور نبی میں ہے۔جس طرح گدھا بے عقل ہونے کی وجہ سے ایک انسان کے مساوی نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک عام انسان اس قوتِ مشاہدہ سے محروم ہوتا ہے جو ایک نبی کوحاصل ہوتا ہے، نبی کی اس قوتِ مشاہدہ کا تعلق اس کے روحانی نور سے ہے۔ لہٰذا ایک عام انسان کی روح میں نور کی وہ کیفیت نہیں ہو سکتی جو ایک نبی کے نور میں ہوتی ہے، پھر سب انبیا کا نور بھی یکساں نہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزر انبیا میں سے صرف تین سو تیرہ انبیا کو رسول بنایا۔ پھر ان رسولوں میں سے پانچ بزرگ ترین رسولوں کو اولوالعزم رسول ہونے کا اعزاز عطا فرمایا اور ان اولوالعزم رسولوں میں سے صرف امام المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبیین ہونے کا اعزاز عطا فرمایا۔انبیا و رسل میں یہ تفاوت اصلاً ان کے نور کا تفاوت ہے۔اب ان تمام انبیاو رسل میں سے سراج منیر ہونے کا شرف صرف امام المرسلین ﷺ کو عطا ہوا۔
سراجِ منیر ﷺ اور دوسرے انبیا و رسل علیہم السلام کی ارواح مقدسہ کے نور میں وہی فرق ہے جو آفتابِ نصف النہار اور ستاروں کی روشنی میں ہے۔جب آفتاب طلوع ہوتا ہے ، ستارے اسی آسمان پر موجود ہوتے ہیں مگر ان کی روشنی آفتاب کی روشنی میں گم ہو کر کالعدم ہوجاتی ہے۔علما نے لکھا ہے کہ امام المرسلین ﷺ کے سراجِ منیر ہونے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ باقی انبیا کی ارواح امام المرسلین ﷺ کی روح سے مستنیر ہوئی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
جب انبیا علیہم السلام یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ان میں اور امام المرسلین ﷺ میں کوئی فرق نہیں تو ہم سیاہ کاروں میں سے کون بدبخت یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے جیسے ہی تھے بس فرق یہ ہے کہ ان پر وحی آتی تھی۔باور کرلیجیے کہ ہم کسی ایک صفت میں بھی رسول اکرم ﷺ کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتے۔صفتِ نبوت کے علاوہ اخلاق و کردار، حسب و نسب، رنگ روپ ، عادات و اطوار کسی ایک وصف میں بھی ہم ان کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتے، چہ جائے کہ ہم منہ پھاڑ کر کہنے کی جسارت کریں کہ ہم میں اور نبی اکرم ﷺ میں صرف وحی ہی کا فرق تو تھا۔ ایسے کفریہ جملے کہنا تو دور کی بات اپنے ذہن کے کسی گوشے میں ایسا خیال ا بھرنے دینا بھی ایمان سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر پر فرمائے۔آمین
وہ سب انبیا کا امام ہے
رسالت اس پر تمام ہے
مت اپنے جیسا کہو اسے
اسے سوچنا بھی حرام ہے