صفات متشابہات
ساجد محمود انصاری
فہمِ قرآن کے لیے ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ حقیقت اور مجاز میں فرق ملحوظِ خاطر رکھیں۔اس فرق کو نظر انداز کرنے سے بہت سی قرآنی آیات کے سمجھنے میں لوگوں کو مغالطہ ہوجاتا ہے۔لغوی طور پر حقیقت سے مراد وہ امور ہیں جو ثابت شدہ ہوں، کوئی لفظ عرف یا شرع میں جس شئے کے لیے وضع کیا گیا ہو وہ حقیقت ہے۔حقیقت کی مثالیں بے شمار ہیں۔ قرآن کی تمام محکم آیات حقیقت پر مبنی ہیں ان میں مجاز کا استعمال شاذونادر ہی ہوا ہے۔جیسے آیاتِ میراث میں ماں ، باپ، بہن ، بھائی وغیرہ کا لفظ بطور حقیقت استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن میں سبع سماوات (سات آسمانوں) اور الارض(زمین ) کے الفاظ بطور حقیقت استعمال کیے گئے ہیں۔سورۃ البقرہ میں بقرہ (گائے)، طور(پہاڑ) ، بحر وغیرہ کے الفاظ بھی بطور حقیقت استعمال ہوئے ہیں۔قرآن میں الفاظ کے حقیقی معنی کی مثالیں بے شمار ہیں۔
مجاز کا لغوی مطلب عبور کرنا یا منتقل ہونا ہے۔جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنی سے کسی دوسرے معنیٰ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تو اسے مجاز کہا جاتا ہے۔مجاز کا معنیٰ مسلمہ حقائق اور محاورہ وعرف کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔جب کوئی لفظ اپنے حقیقی معنیٰ کی بجائے مجازی معنیٰ میں استعمال ہوا ہو تو اس کے حقیقی معانی پر اصرار درست نہیں ہوتا۔جیسے نزل السحاب کا لغوی مطلب ہے کہ بادل برسا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بادل بذاتِ خود زمین پر آکر نہیں گرتا بلکہ عرف میں اس کا مطلب ہے مینہ برسا۔عرفِ عام میں مجاز کے استعمال کی مثالیں بھی بے شمار ہیں۔ جیسے سونے کی انگوٹھی حقیقت میں سونا ہوتی ہے مگر ہم اسے عرف میں سونے کی بجائے انگوٹھی کہتے ہیں۔لکڑی کا پلنگ حقیقت میں محض لکڑی ہی ہوتا ہے مگر ہم عرفِ عام میں اسے پلنگ ہی کہتے ہیں۔
قرآن حکیم چونکہ عربی زبان میں ہے اور ہر زبان کی طرح عربی میں بھی حقیقت کے ساتھ ساتھ مجازات و استعارات کا استعمال عام ہے، اس لیے قرآن میں مجاز و استعارہ کی موجودگی کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ درج ذیل حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن میں مجاز کا استعمال ہوا ہے:
بے شک وجہ، اید، اعین جیسے الفاظ اللہ تعالیٰ کی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مگر بطور اعضا و جوارح نہیں بلکہ عرب محاورہ میں جن صفات کے لیے یہ الفاظ مجازاً بولے جاتے ہیں، وہی صفات مراد ہیں۔ یعنی نفس، قدرت اور بصارت وغیرہ۔
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: {وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ}… اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہو جائے (سورۂ بقرہ: ۱۸۷) تو میں نے دو دھاگے لئے، ان میں سے ایک سیاہ تھا اور دوسرا سفید، میں نے انہیں اپنے تکیہ کے نیچے رکھ دیا، پھر میں نے انہیں دیکھنا شروع کردیا، لیکن میرے لئے نہ تو سیا ہ دھاگہ ظاہر ہوتاتھا اور نہ ہی سفید دھاگہ، جب صبح ہوئی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور میں نے جو کچھ کیا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے، اس سے یہ مراد تو دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی ہے۔
مسند احمد: رقم 19557، صحیح البخاری: رقم 1916، 4509، سنن ابوداؤد: رقم 2349
ظاہر ہے کہ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں پائے جانے والے مجاز کو نہ سمجھ پائے تھے اور انہوں نے دھاگوں سے حقیقی دھاگے مراد لے لیا، تب نبی ﷺ نے ان پر حقیقت واضح فرمادی کہ یہاں سوت کے دھاگے مراد نہیں بلکہ فجر کا طلوع ہونا۔
امام ابوالخطاب الحنبلی ؒ نے فرمایا:
نص أحمد رحمه الله على أن في القرآن مجازاً فيما خرجه من متشابه القرآن وبه قال عامة العلماء
التمہید فی اصول الفقہ، جلد 2، صفحہ 266
امام احمد بن حنبلؒ کا واضح فرمان موجود ہے کہ قرآن حکیم میں مجازکا ستعمال ہوا ہے، جسے قرآن کی متشابہات میں شمار کیا جاتا ہے، یہی اکثر علما کا قول ہے۔
قرآن حکیم میں استعمال ہونے والے مجاز کی بارہ قسمیں ہیں۔جن کی تفصیل اصولِ تفسیر کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں ہم قرآن میں مجاز کے استعمال کی وضاحت کرنے کے لیے صرف چند مثالوں پر اکتفا کریں گے۔
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
الذاریات: 47
اور ہم نے اپنی قدرت سے یہ آسمان بنایا ہے اور ہم اسے کشادہ کررہے ہیں۔
یہاں اید (ہاتھوں ) کالفظ بطور مجاز وارد ہوا ہے مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی بے مثل قدرت ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام ، امام مجاہدؒ، امام قتادہؒ، امام عبدالرحمٰن بن زیدؒ، امام سفیان الثوری ؒنے اید کی یہی تفسیر فرمائی ہے، ملاحظہ فرمائیے تفسیر ابن جریرؒ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۖ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابلیس تجھے کس نے منع کیا ہے کہ تو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے جسے میں نے اپنی خاص قدرت سے پیدا کیا ہے؟
سورۃ ص:75
لما خلقت بیدی کا لفظی مطلب ہے کہ جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیاہے۔ یہاں دونوں ہاتھوں سے پیدا کرنے سے اشارہ ہے عنایت اور اہتمام کی طرف۔ یہاں مقصد اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھوں کا اثبات کرنا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ مخلوق کی طرح اعضا و جوارح سے مرکب ہو۔ دراصل یہاں یدی باری تعالیٰ کی خاص قدرت کے لیے مجاز ہے۔انسانی دماغ کائنات کی سب سے زیادہ معلوم پیچیدہ شئے ہے۔یقیناً اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو اپنی قدرت سے ہی پیدا کیا ہے مگر مٹی کے خلاصے سے جیتے جاگتے انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی خصوصی قدرت کا اظہار و اعلان کرتی ہے۔
عرب محاورہ میں اس طرح کے مجازات کا ستعمال بہت عام ہے۔ خود سورۃ ص میں ہی اس طرح کا محاورہ دو مزید مقامات پر استعمال ہوا ہے۔
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اور خاص طور پر ہمارے برگزیدہ بندے داؤد علیہ السلام کا ذکر کیجیے جوصاحبِ قوت اور فرمانبردار تھے۔
اذْكُرْ عِبَادَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ
ہمارے برگزیدہ بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کا خاص طور پر ذکر کریں جو صاحبِ قوت و بصارت تھے۔
سورۃ ص:45
اب سیدنا داؤد علیہ السلام کو ذالاید اور سیدنا ابراہیم، سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب علیہم السلام کو اولی الایدی کہنا مجاز ہے۔ ذالاید یا اولی الاید کا مطلب دو ہاتھوں والا ہے، ظاہر ہے یہاں مقصود یہ بتانا نہیں ہے کہ ان پیغبروں کے دو دو ہاتھ تھے، بلکہ عرب محاورہ میں اس سے مراد صاحبِ قوت ہونا ہے اور یہاں مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیا کو جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ خودمختاری بھی عطا فرمائی تھی، جس کے لیے قوتِ فیصلہ کا ہونا بھی ضروری ہے، گویا یہ الفاظ ان جلیل القدر انبیا علیہم السلام کی قائدانہ صلاحیتوں کی طرف اشارہ کناں ہیں۔
عرب محاورہ کے ان مجازات کو نظر انداز کرکے یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ کے دو ہاتھ ہیں، ہاں مگر وہ مخلوق کے ہاتھوں جیسے نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کی احدیت کی نفی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے
وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلاَّ وَجْهَهُ
القصص:88
اور اللہ کے سوا کسی دوسرے(خودساختہ) خدا کو مت پکارو، اس (اللہ) کی ذات کے سوا ہر شئے ہلاک ہونے والی ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں توحیدِ باری تعالیٰ کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ابدا الاباد تک باقی رہنے والی ہے اور اس کے سوا تمام ہستیاں ہلاک ہونے والی ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ ہی اس لائق ہے کہ اسے معبودِ برحق مانتے ہوئے حاجت روائی کے لیے پکارا جائے۔
آیت میں لفظ وجہ وارد ہوا ہے جس کا حقیقی معنی چہرہ ہوتا ہے، مگر یہاں چہرہ بول کر ذات مراد لی گئی ہے۔ چونکہ جب بھی کسی کی ذات پر نظرڈالی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کا چہرہ ہی دیکھاجاتا ہے، اس لیے عرب محاورہ میں’ وجہ‘بول کر مجازاً ذات مراد لی جاتی ہے۔واللہ اعلم
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
البقرۃ:115
اور مشرق و مغرب اللہ ہی کا ہے، تم جس طرف بھی رخ پھیروگے اس جانب اللہ کی ذات موجود پاؤگے۔بے شک اللہ تعالیٰ وسیع علم رکھتا ہے۔
یہاں بھی وجہ اللّٰہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا انسانوں جیسا کوئی چہرہ نہیں ہے بلکہ اس سے ذاتِ الہٰی مراد ہے۔واللہ اعلم
اللہ تعالیٰ نے سیدنا نوح علیہ السلام سے فرمایا
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ
ھود:37
اور ہماری وحی کی روشنی میں ہماری نگرانی میں ایک کشتی بناؤ،اور ان (منکرین) کے بارے میں سفارش مت کرنا جنہوں اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، یہ لازماً غرق ہونگے۔
آیت میں باعیننا (ہماری آنکھوں کے سامنے ) کی ترکیب وارد ہوئی ہے، اب اس سے یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کی ہماری جیسی آنکھیں ہیں ، اور ہیں بھی دو سے زیادہ کیوں کہ اعین کا لفظ جمع ہے جو کم از کم تین کے لیے بولا جاسکتا ہے۔ یکسر غلط ہے۔ یہاں آنکھیں قوتِ بصارت کے لیے مجاز ہیں۔ہماری آنکھیں مختلف مادی اجزا کا مجموعہ ہیں اور دیکھنے کے لیے روشنی اور قربت کی محتاج ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی قوتِ بصارت ابدی ہے غیر کی محتاج نہیں۔ وہ اس وقت بھی دیکھتا تھا جب روشنی کے منبعے یعنی سورج، چاند اور ستارے ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھےاورآج بھی کائنات کے تاریک سے تاریک تر گوشے اس کے حیطۂ بصارت سے باہر نہیں ہیں۔وہ بِن آنکھوں کے دیکھتا ہے اور بِن کانوں کے سنتا ہے۔اس کا علم کائنات اور اس سے ماورا ہر شئے کا علم رکھتا ہے اور اس کا یہ علم ابدی و لافانی ہے۔
کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہیں ہونا چاہیے کہ مجاز کا دعویٰ صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں ہی ہے۔ قرآن میں مجاز کی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن کا براہ راست صفات باری تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے۔ جیسے سورۃ الکہف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ
یہاں تک کہ وہ (ذوالقرنین اپنے زعم میں) سورج غروب ہونے کے(آخری) مقام تک پہنچ گیا،اور اس نے اسے گدلے چشمے میں غروب ہوتا ہو ادیکھا۔
ذوالقرنین کی مہمات کے تذکرے میں اس کی مغربی مہم کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ یورپ کے مغربی کنارے (موجودہ فرانس) کے ساحل پر پہنچا تو اس نے ڈوبتے سورج کو دیکھا تو اسے ایسا لگا کہ جیسے وہ سمندر میں اتر رہا ہے۔ آج بھی ہم کسی ساحل پر کھڑے ہوکر یہ مشاہدہ کرسکتے ہیں۔قرآن نے ذالقرنین کا ذاتی مشاہدہ بیان ادبی انداز میں بیان کرنے کے لیے گدلے چشمے میں ڈوبنے کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ حقیقت نہیں بلکہ مجاز ہے۔
اسی طرح قرآن میں متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ کسی شئے کاجزو بول کر کُلّ مراد لیا گیا ہے ، جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
البقرۃ:238
تمام نمازوں کی حفاظت کرو خاص طور پر درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنے عاجزی سے کھڑے رہو۔
بظاہر یہاں صرف قیام عاجزی کے ساتھ کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر مراد پوری صلوٰۃ (نماز) ہے۔ یہی اسلوب وارکعوا مع الراکعین میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی صرف رکوع باجماعت نہیں کرنا بلکہ ساری فرض نماز باجماعت پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔نیزواسجد واقترب میں بظاہر صرف سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے مگر اصلاً حکم نماز پڑھنے کا ہے۔ گویا ان آیات میں قیام، رکوع اور سجود کامل نماز کے لیے مجاز ہیں۔واللہ اعلم بالصواب