2025-07-05

 ڈاؤن لوڈ پی ڈی ایف

حجاب اور تحفّظِ نسواں

حجاب اور تحفّظِ نِسواں

اسلام نے خواتین کی عصمت کے تحفظ اور معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے خواتین کو پابند کیا ہے کہ وہ  جہاں کہیں بھی ہوں  اپنی پوشیدہ زینت کو  دوسروں سے چھپا کر رکھیں، سوائے ان محرم رشتوں کے جنہیں شریعت نے مستثنیٰ کیا ہے۔

خواتین کے لیے حجاب کے احکامات دو قسم کے ہیں۔ ایک قسم کے احکام گھر میں اپنے محرموں کے بیچ رہتے وقت ہیں اور دوسرے قسم کے احکام گھر سے باہر جانے کے لیے ہیں۔

گھر کے اندر رہتے ہوئے محرموں کے سامنے حجاب کی نوعیت سورہ نور میں یوں بیان کی گئی ہے

 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ 

مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ 

بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ 

أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا 

عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا 

أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

[1]

اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتی رہیں۔ اور یہ کہ مت ظاہر کریں اپنی زینت سوائے اس کے کہ جو اس میں سے بلا اختیار ظاہر ہوجاتا ہے، اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر بھی ڈالے رکھیں۔ اور ہرگز ظاہر مت کریں اپنی زینت سوائے اپنے شوہروں، باپوں، شوہروں کے باپوں،سگے  بیٹوں، سوتیلے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، گھر کی خواتین، باندیوں، ان ( غیر محرم بوڑھے) مردوں کےجو شہوت نہ رکھتے ہوں،یا ان لڑکے بالوں کے سامنے جو عورتوں کے پوشیدہ معاملات سے ناواقف ہوں۔ اور ایسے انداز میں مت چلیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو،  اے مؤمنوسب مل کراللہ سے معافی مانگو، تاکہ تم فلاح پاسکو۔

 

چنانچہ مذکورہ بالا ٓیت سے درج ذیل احکام  مستنبط ہوتے ہیں، واضح رہے یہ احکام اس وقت کے لیے ہیں جب خواتین اپنے گھر پر موجود ہوں۔

۱۔ نظریں جھکا کر رکھیں  یعنی بےباک انداز میں نظریں دوسرے مردوں کے چہرے پر گاڑ کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو مت کریں۔

۲۔ عربی زبان میں خمار خواتین کی  اس اوڑھنی کو کہا جاتا ہے جس سے سر ڈھانپا جاتا ہے۔جیسا کہ لغتِ قرآن کے ماہر علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں

اصل الخمر سترالشئی، و یقال لما یستر بہ خمار،لکن الخمار صار فی التعارف اسما لما تغطی بہ المرٔۃ رأسھا[2]

خمر کا اصل معنیٰ کسی شئے کو ڈھانپنا ہے، اور جس شے سے ڈھانپا جائے اسے(لغوی طور پر)  خمار کہتے ہیں البتہ عرب محاورہ میں اس اوڑھنی کو خمار کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے۔

بظاہر سینے پر اوڑھنی ڈالنے کا حکم وارد ہوا ہے مگر لفظِ خمار(جمع خُمُر) سے واضح ہے کہ اس میں سر کو ڈھانپنے کا مفہوم بطریقِ اولیٰ  شامل ہے۔

۳۔ اپنے گھر میں اہلِ خانہ کی مشترکہ مجلس میں کہ جہاں ان کا خاوند، باپ، سسر، سگے اور سوتیلے بیٹے، بھائی ،بھتیجے  اور بھانجے وغیرہ موجود ہوسکتے ہیں، خواتین اپنی کوئی ایسی زینت ظاہر نہ ہونے دیں جو خلوت میں صرف اپنے خاوند کے سامنے ہی ظاہر کرسکتی ہیں۔اس مشترکہ مجلس میں صرف وہی زینت  چھپانے سے مستثنیٰ ہے جس کا مسلسل چھپائے رکھنا گھر کے کام کاج کرتے وقت ممکن نہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نے صراحت فرمائی ہے کہ سورہ نور کی یہ آیات  خواتین کے گھر کے اندر رہتے ہوئے حجاب (ستر)کو ظاہر کرتی ہیں۔ اور جس زینت کو اہل خانہ کے سامنے چھپانے سے مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ چہرہ، سرمہ، ہاتھوں پر لگی مہندی،انگوٹھی وغیرہ ہے۔

حدثني عليّ، قال: ثنا عبد الله، قال: ثني معاوية، عن عليّ، عن ابن عباس، قوله

 ( وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) 

قال: والزينة الظاهرة: الوجه، وكحل العين، وخضاب الكفّ، والخاتم، فهذه تظهر في بيتها لمن دخل من الناس عليها [3].  

سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نے فرمایا 

وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا  

میں ظاہری زینت (جو اہل خانہ کے سامنے چھپانے سے مستثنیٰ ہے)   سے مراد چہرہ، سرمہ،  ہاتھوں پر لگی مہندی،انگوٹھی ہے۔یہ زینت اپنے گھر کے اندر رہتے ہوئے ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز ہے  (جو آیت میں مذکور ہیں )جن کا  ان کے گھر میں  عام آنا جانا ہے۔

یاد رہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نے مستثنیٰ زینت میں سر کے بالوں کو شامل نہیں کیا، جس کا صاف مطلب ہے کہ اہلِ خانہ کے سامنے(مشترکہ مجلس میں)   خواتین کو اپنے بال ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک دوسری روایت میں سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نےفرمایا ہے

فأما خلخالاها ومعضداها ونحرها وشعرها، فإنه لا تبديه إلا لزوجها [4]
اور رہی اس کی  پائل، بازوبند، سینہ اور بال تو یہ اپنے خاوند کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کرے۔

پس معلوم ہوا کہ سر کے بال بھی خواتین کے ستر میں شامل ہیں۔ایک صحیح حدیث سے اس کی مزید تائید ہوجاتی ہے

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺسیدہ فاطمہ علیہا السلام کے لیے ایک(بوڑھا) غلام لے کر آئے جو آپ نے انہیں ھِبہ کیا تھا۔اس وقت سیدہ فاطمہ علیہا السلام نے ایک ایسی چادر اوڑھی ہوئی تھی کہ آپ اس سے اپنا سر ڈھانپنے کی کوشش کرتیں تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں ڈھانپتیں تو سر کا بعض حصہ ننگا ہوجاتا۔ نبی ﷺ نے ان کی اس الجھن کو محسوس کرتے ہوئے فرمایا، ارے کوئی حرج نہیں، یہاں صرف تمہارا باپ اور (بوڑھا) غلام ہی تو  موجودہے۔[5]

معلوم ہوا کہ باپ  اور غلام کے سامنے بھی سر ڈھانپنا ضروری ہے۔نیز یہ کہ پاؤں محارم کے سامنے ستر میں شامل نہیں۔

بعض لوگوں کو شبہہ  ہوا ہے کہ یہ آیت گھر سے باہر  نامحرموں کے بیچ خواتین کے حجاب (ستر )کو ظاہر کرتی ہے، حاشا و کلا ایسا نہیں ہے۔اپنے دلوں سے یہ وہم نکال دیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن رشتہ داروں کے سامنے زینت ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے ان کا تذکرہ بھی اسی آیت میں کردیا ہے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ الا ما ظہر منھا  کا تعلق غیرمحرموں کے ساتھ نہیں بلکہ محارم کے ساتھ ہے۔نیز سیدنا عبداللہ بن عباس علیہماا لسلام کی وضاحت سے یہ  نکتہ مزید نکھر جاتا ہے۔واضح رہے کہ ان رشتہ داروں میں  بالغ کزنز شامل نہیں ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ اپنے  محرم رشتہ داروں کے سامنے خواتین  کواپنےچہرے ، ہاتھوں اور پاؤں کے سوا کچھ بھی ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب

جب خواتین کسی ضروری کام سے گھر سے باہر جائیں تو ان پر لازم ہے کہ  گھریلو لباس کے اوپر سےاپنے پورے جسم کو ایسی چادر میں چھپائیں جس سے  جسم کا  کوئی حصہ بھی ظاہر نہ ہو۔یہاں تک کہ چہرہ ،ہاتھ اور پاؤں بھی ظاہر نہ ہوں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا [6]

اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور دوسرے مؤمنوں کی گھر والیوں سے فرمادیجیے کہ اپنے اوپر چادر اوڑھ لیا کریں، یہ اس لیے تاکہ ان کا پاکباز ہونا معلوم ہوجائے اور کوئی انہیں ایذا نہ پہنچا سکے۔ اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

سورہ احزاب کی اس آیت کریمہ کی رو سے مؤمن خواتین پر فرض ہے کہ وہ غیر محرموں کے بیچ اپنے سارے بدن کے  اوپر چادر اوڑھے رکھا کریں۔ عربی میں جلباب کا لفظ استعمال ہوا ہے جو ایسی لمبی چادر کے لیے بولا جاتا ہے جس سے سارا بدن ڈھانپا جائے۔ ذلک ادنیٰ ان یعرفن کے قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم گھر سے باہر جانے کے لیے ہے، کیونکہ گھر کے اندر پہچانے جانے کی تصریح بے محل معلوم ہوتی ہے۔ گاؤن یا عبایہ اس چادر کا متبادل ہوسکتا ہے، بشرط یہ کہ سر  اور چہرے کو ڈوپٹے یا حجاب سے مکمل طور پر ڈھانپا گیا ہو۔

احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر محرموں کے سامنے چہرے کا حجاب فرض ہے۔

ام المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہ علیہا السلام کے والد زمعہ کی لونڈی کے کسی زمانے میں عتبہ کے ساتھ ناجائز تعلقات رہے تھے۔ تاہم اس لونڈی نے زمعہ کے بستر پر  ایک بچے کو جنم دیا  جسے زمعہ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا اور سیدہ سودہ  علیہا السلام بھی اسے اپنا بھائی سمجھتی تھیں اس لیے اس سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔عتبہ نے اپنے بھائی  سیدنا سعد بن ابی وقّاص  رضی اللہ  عنہ کو وصیت کی کہ وہ اس لڑکے کو اپنے قبضے میں کرلے کیونکہ وہ  (درحقیقت )عتبہ کا بیٹا ہے۔سیدنا سعد بن ابی وقّاص رضی اللہ عنہ اورسیدنا  عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ   کے مابین اس مسئلے پرجھگڑا ہو ااور فیصلے کے لیے یہ مسئلہ نبی ﷺ کے گوش گزار کیا گیا۔نبی ﷺ نے اس متنازعہ لڑکے کو غور سے دیکھا تو اس میں  واضح طور پر عتبہ کے ساتھ مشابہت موجود تھی۔ تب نبی ﷺ نے  فرمایا کہ بچہ اسی کا مانا جاتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا ہو،پھر سیدہ سودہ  علیہا السلام سے فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ  کیاکرو۔[7]

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اس غزوے سے واپسی کی روداد بیان کرتی ہیں جس کے بعد ان پربدکاری کی تہمت لگائی گئی، وہ بتاتی ہیں کہ قافلے نے واپسی پر مدینہ کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ خواتین کے لیے اونٹوں پر پالکیاں بنائی گئی تھیں جن میں بیٹھ کر وہ سفر کرتی تھیں۔ تاہم پڑاؤ کے وقت پالکیاں نیچے اتار دی جاتی تھیں، تاکہ خواتین آرام کرلیں اور اپنے تقاضے پورے کرلیں۔ سیدہ عائشہ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئیں، وہاں ان کا موتیوں کا ہار ٹوٹ کر گر پڑا وہ اس کی تلاش کرتی رہیں اور پیچھے سے قافلہ روانہ ہوگیا۔ پالکی اٹھانے والے سمجھے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا پالکی میں ہی تشریف فرما ہیں، اس لیے انہیں روانگی میں کوئی تردد نہ ہوا۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا واپسی پر قافلے کو اپنی جگہ نہ پاکر ہکا بکا رہ گئیں، اور پریشانی کے عالم میں وہیں بیٹھ گئیں تاکہ کوئی تلاش کرنے آئے تواس کے ساتھ روانہ ہوں۔ اسی سفر کی تکان کے باعث سیدہ عائشہ وہیں بیٹھے بیٹھے سو گئیں۔ قافلے کےایک شخص کا ذمہ یہ کام لگایا جاتا تھا کہ وہ قافلے کے بعد پیچھے خوب دیکھ بھال کرآئیں کہ آیا کسی کا کوئی سامان تو پیچھے نہیں رہ گیا۔ اس بار یہ کام صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کے ذمہ لگایا گیا تھا۔ وہ ادھر ادھر نظر گھماتے اس جگہ آن پہنچے جہاں سیدہ عائشہ تشریف فرما تھیںاس روداد کا وہ حصہ جو ہمارے موضوع زیر بحث سے متعلق ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں

فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ، فَأَتَانِي فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وَكَانَ يَرَانِي قَبْلَ الْحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي [8]

اس (صفوان بن معطل ؓ) نے ایک شخص کو وہاں سوتے ہوئے پایا تو وہ قریب آگیا اور اس نے مجھے دیکھ کر پہچان لیا۔ کیوں کہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے وہ مجھے دیکھ لیا کرتے تھے۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو انا للہ وا نا الیہ راجعون پڑھا اور اس کے یہ کلمہ کہنے سے میری آنکھ کھل گئی۔ تب میں نے(بیدار ہوتے ہی)  فورا ًاپنے چہرے پر اپنی چادر ڈال لی۔

کیسی ہنگامی صورتحال ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس ہنگامی صورتحال میں بھی سب سے پہلے اپنے حجاب کا خیال آتا ہے۔ سیدہ کے الفاظ سے صاف واضح ہے کہ وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے تو صحابہ کے سامنے کھلے چہرے آجاتی تھیں، مگر اس حکم کے بعد ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اسی لیے انہوں نے غیر محرم کو اپنے قریب  پاتے ہی گھونگھٹ نکال لیا۔

غرض  يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ سے مراد سارے بدن کو چادر سے ڈھانپنا ہے صرف سر کو نہیں۔لہٰذا گھر سے باہر یا غیر محرم کے سامنے عورت کا سار اجسم ستر ہے۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مؤقف ہے۔واللہ اعلم بالصواب

احکام حجاب میں بعض ناگزیر صورتوں میں تخفیف کی گئی ہے، جیسے طبیب  ناگزیر صورت میں بعض پوشیدہ  اعضا (بلا شہوت) دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح نکاح کا پیغام دینے والا شخص  خاتون کے محرم رشتہ دار کی موجودگی میں اس کے وہ اعضا  بلا شہوت  دیکھ سکتا ہے جنہیں محرم رشتہ دار دیکھ سکتے ہیں، یعنی، چہرہ، ہاتھ اور پاؤں۔

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ  جب تم کسی خاتون کو نکاح کا پیغام دو تو  (نکاح سے پہلے)  ممکن ہو تو اس کے جسم کے وہ حصے دیکھ لو (جن کی خوبصورتی)  کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔[9]

نبی ﷺ کی مراد چہرہ، ہاتھ اور پاؤں ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ غیر محرم کو  دیکھنا  مطلقاً ممنوع ہے تو جب اس حکم  میں کسی ضرورت کے تحت تخفیف کی جائے گی تو صرف اس حد تک  کہ جس حد تک محرم کے لیے نظر ڈالنا جائز ہے۔اس سے زائد پر نظر ڈالنا صرف خاوند کا حق ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب


 النور ۳۱[1]

[2] مفردات الفاظ القرآن، صفحہ 175، دار نشر اللغۃ العربیۃ، مکتبۃ البشریٰ کراچی

[4] تفسیر ابن جریر

[5] سنن ابوداؤد: 4106

 الاحزاب ۵۹[6]

[7] سنن النسائی: رقم 3517، صحیح البخاری: رقم 2421، صحیح مسلم : رقم 1457، سنن ابو داؤد: رقم 2273

 صحیح البخاری :ح ۴۷۵۰[8]

[9] سنن ابو داؤد: رقم 2082

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading