کیا دوسرے سیّاروں پر بھی انسان آباد ہیں؟
از قلم ساجد محمود انصاری
عصرِ حاضر میں اہلِ مغرب کی فرضی خلائی مخلوق کی تلاش اور سائنس فکشن پر مبنی فلموں اور گیمز کے زیر اثر مسلم نوجوان متجسس ہیں کہ کیا واقعی دوسرے سیاروں پر انسان یا ان جیسی کوئی دوسری مخلوق آباد ہے؟ بعض بلاگرز اور وی لاگرز نے یہ دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے کہ قرآن میں جن سات زمینوں کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں ہمارے جیسے انسان آباد ہیں۔ قرآن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا تذکرہ بیسیوں مقامات پر کیا گیا ہے اور ان سب مقامات پر سات آسمانوں اور ایک زمین کا ذکر ہے۔ صرف سورۃ الطلاق (آیت 12) میں ایسا اشارہ ہے کہ جس سے سات زمینوں کے وجود کا احتمال ہے۔ اصولی طور پر اس آیت کا مفہوم قرآن کے ان مقامات کے مطابق لینا چاہیے جن میں تخلیق ِکائنات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہم اپنے مضمون ’سات آسماناور سات زمینیں‘ میں سیدنا عبداللہ بن عباس علیہم السلام کے حوالے سے واضح کرچکے ہیں کہ سات زمینوں سے مراد زمین کے سات بڑے قطعات یعنی براعظم ہیں۔ اگر زمین جیسے سات الگ الگ سیاروں کے وجود کو تسلیم بھی کرلیا جائے ، تب بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان سات زمینوں میں انسانوں جیسی مخلوق بھی آباد ہے۔ قرآن حکیم کی محکم آیات زمین کے سوا کسی دوسرے سیارے پر انسانوں کے مادی وجود کی نفی کرتی ہیں۔ عالمِ ارواح، عالمِ برزخ وغیرہ کے وجود سے ہمیں انکار نہیں ہے، مگر وہ روحانی عالم ہیں ہماری اس دنیا کی طرح مادی نہیں ہیں، لہٰذا وہ خارج از بحث ہیں۔
قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر تخلیق آدم علیہ السلام کے مقاصد واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔قرآن اور احادیث صحیحہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس آدم کی تخلیق کا ذکر کیا ہے وہ ایک مشخص فردِ واحد کا نام ہے، جسے اسی زمین کی خلافت کے لیے تخلیق کیا گیا تھا جس پر ہم آباد ہیں۔ اسی آدم علیہ السلام کو اس زمین پر بھیجا گیا اور اسی زمین میں اس کی ضرورت کی تمام اشیا پیدا کی گئی ہیں۔ سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ اس منصوبہ کو یوں بیان فرماتے ہیں:
قَالَ اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ
قَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تُخْرَجُوْن
ارشاد ہوا کہ تم سب زمین میں اتر جاؤ اور بعض بعض کا دشمن ہوگا۔زمین میں تمہارے لئے ایک مدّت تک ٹھکانا اور سامان زندگانی ہے۔ فرمایا کہ وہیں تمہیں جینا ہے اور وہیں مرنا ہے اور پھر اسی زمین سے نکالے جاؤ گے۔
اب بتائیے کہ سیدنا آدم علیہ السلام کس زمین میں اتارے گئے اور کس زمین میں ان کا جینا اور مرنا ہوا؟ یہ محکم آیتِ کریمہ اس مفروضے کی جڑ کاٹ دیتی ہے کہ زمین جیسے کسی دوسرےسیارے پر بنی آدم آباد ہیں۔ مذکورہ مفروضے کی تائید میں بعض ضعیف اور شاذ قسم کے اقوال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ مثلاً تفسیر ابن کثیر میں سورۃ الطلاق (آیت 12) کے ذیل میں سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ سات آسمانوں کی طرح سات زمینیں ہیں جن میں سے ہر ایک میں ایک محمد(ﷺ)، ایک آدم، ایک نوح، ایک ابراہیم اور ایک عیسیٰ علیہم السلام موجود ہیں۔
امام بیہقی ؒ نے یہ روایت کتاب الاسمأ والصفات میں ذکر کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت غریب اورشاذ ہے۔
اب ایسے غرائب کی بنیاد پر قرآن حکیم کی نصوص قطعیہ کی تاویل کرنا ہمارے نزدیک چنداں درست نہیں۔لہٰذا یہ کہنا کہ سورۃ الاعراف کی مذکورہ بالا آیات میں الارض سے مراد سات زمینیں ہیں ،قطعی طور پر غلط ہے۔ سیاق و سباق اس تاویل کی اجازت نہیں دیتے۔اس تاویل کے ذریعے رائی کا پہاڑ بنایا گیا ہے اور یہاں تک دعویٰ کردیا گیا ہے کہ سیدنا نوح، سیدنا ادریس، سیدنا سلیمان علیہم السلام اور ذوالقرنین وغیرہ کے پاس شاید کوئی ٹائم مشین تھی جس کے ذریعے وہ ان سیاروں پر آتے جاتے رہے ہیں اور وہاں آباد انسانوں سے جنگیں بھی کرتے رہے ہیں۔سٹار ٹریک، ٹائم ٹریول اور اس جیسے دوسرے سائنسی افسانوںکی ساری کہانی کو قرآن حکیم سے کشید کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے، جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اسی کہانی کی بنیاد پر یہ بھی باور کرایا جارہا ہے کہ دجّال بھی سٹار وار کا ہی کوئی کردار ہے۔ غرض قرآن کا نام لے کرایسی کہانیاں تخلیق کی جارہی ہیں، جن کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں اور ان سائنس فکشن کے ماروں کی ذہنی اختراع ہے اور بس۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و سنت کا صحیح فہم عطا فرمائے، شذوذ سے بچائے اور محکمات کی بنیاد پر اپنی زندی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین