کیا بائبل پر ایمان لانا ہم پر واجب ہے؟
از قلم ساجد محمود انصاری
قرآن حکیم میں ایک سے زائد مقامات پر صراحت ہے کہ امام المرسلین محمد عربی ﷺ کوئی نیا دین لے کر نہیں آئے، بلکہ یہ بنیادی طور پر وہی پیغامِ توحید ہے جو سب انبیا کا مشترکہ پیغام ہے۔ اسی ضمن میں اہل ایمان پر سابقہ کتب سماویہ پر اجمالی طورپر ایمان لانے کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے، جوکہ ارکان ایمان میں سے ایک رکن ہے۔قرآن میں جن سابقہ کتب سماویہ کا نام صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے وہ تورات، زبور اور انجیل ہیں۔ اسی طرح بعض دوسرے انبیا کے صحائف کی طرف مجمل اشارہ کیا گیا ہے۔تمام اہلِ اسلام چونکہ ان حقائق سے واقف ہیں اس لیے ہم یہاں ایمان کے اس اہم رکن کے دلائل بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مکلف نہیں بنایا کہ وہ سابقہ کتب سماویہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں اور جب تک وہ انہیں تلاش کرکے ان کے تمام مندرجات پر بالتفصیل ایمان نہیں لے آتے، ان کا ایمان ہی معتبر نہ ہو۔ جان لیجیے کہ ایسا نہیں ہے۔ سابقہ کتب سماویہ پر صرف اجمالی ایمان مطلوب ہے، یعنی ان کتب کے بارے میں جو کچھ قرآن حکیم میں بیان کردیا گیا ہے، صرف اتنا ایمان رکھنا ہی واجب ہے، اس سے زیادہ کا تقاضہ ہم سے نہیں کیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہم سے اس سے زیادہ کا تقاضہ کیسے کرسکتے ہیں جبکہ سابقہ کتب سماویہ تاریخ کی گرد میں گم ہوچکی ہیں، جن کااصل منزل من اللہ متن ان پر بالتفصیل ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس بھی موجود نہیں۔ایسی صورت میں اہل ایمان سے یہ تقاضہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان سابقہ کتب پر بالتفصیل ایمان لائیں؟ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ان کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ جب اصل کتب سماویہ (ماسوائے قرآن) کا سراغ لگانا ہی ممکن نہیں رہا تو ان پر بالتفصیل ایمان کا تقاضہ تکلیف مالا یطاق کے مترادف ہے۔
سابقہ کتب سماویہ پر ایمان کے ضمن میں طلبا کے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ جس طرح تورات، زبور اور انجیل پر ایمان لانا واجب ہے، کیاا سی طرح بائبل پر ایمان لانا بھی ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بائبل کیا ہے؟ یہ کب اور کیسے ارقام پذیر ہوئی؟نیز یہ کہ خود یہودونصاریٰ کا بائبل کے بارے میں کیا اعتقاد ہے؟
باوجود اس کے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تورات مرقوم الواح (تختیوں) کی شکل میں عطا کی گئی تھی، مگر بنی اسرائیل کی اکثریت کے ناخواندہ ہونے کی وجہ سے عوام میں بائبل کی زبانی روایت ہی چلتی تھی۔ بنی اسرائیل کے مذہبی پیشواؤں نے تورات لکھنے اور پڑھنے کے حقوق اپنے لیے مخصوص کر لیے تھے۔۔ عوام کو تورات کے نسخے اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔[1]لہٰذا ان پیشواؤں نے اپنے دنیا وی مفادات کی خاطر تورات میں بہت زیادہ ردو بدل کیا ، جس سے عوام بے خبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودی مذہبی پیشواؤں کے اس طرزِ عمل پر سختی سے گرفت کی ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی کتاب لکھتے اور اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرار دے دیتے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَیْدِیْهِمْ١ۗ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا١ؕ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ وَ وَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا یَكْسِبُوْنَ [2]
اور ان میں سے بہت سے لوگ ان پڑھ ہیں جو کتاب (تورات) کا علم تو رکھتے نہیں، البتہ کچھ آرزوئیں پکائے بیٹھے ہیں، اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔ لہذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں۔
یہودی پیشواؤں کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے ایسی بہت سی کتابیں وجود میں آگئیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی تھیں۔یوں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے چند صدیوں بعد ہی یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوگیا کہ اصل تورات کونسی ہے؟ہاں تورات کے چند احکام ایسے ضرور باقی تھے، جن کے منزل من اللہ ہونے کے بارے میں سب پیشواؤں کا اتفاق تھا۔مگر اصل تورات کے گم ہوجانے کی وجہ سے یہودی شدید افتراق و انتشار کا شکار تھے۔ تاآن کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے دین کی تجدید کے لیے مبعوث کیے گئے، مگر بنی اسرائیل کی اکثریت نے ان کو جھٹلا دیا۔یہاں تک کہ انہیں قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔آخر انہوں نےبادشاہ وقت کے دربار میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مذہب سے بغاوت کی شکایت کردی۔بادشاہ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکانے کا حکم صادر کیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام روپوش ہوگئے۔ ایک ایسے شخص کو عیسیٰ سمجھ کر سولی دے دی گئی جس کی شکل ان سے ملتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھالیا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نےاپنے حواریوں کوزبانی ہی انجیل سکھائی تھی۔ بادشاہ کے عتاب سے بچنے کے لیے یہ حواری بھی ادھر ادھر روپوش ہوگئے تھے۔ بعد ازاں انہی حواریوں میں سے بعض پڑھے لکھے حواریوں نے اپنی اپنی یادداشت سے انجیل لکھی۔ دو چارانسان جب اپنے حافظے سے کوئی کتاب لکھتے ہیں تو فطری طور پر ان میں کچھ اختلافات واقع ہوجاتے ہیں۔ انجیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان حواریوں کی لکھی ہوئی انجیل اگرچہ اصل انجیل ہی تھی مگر اس کے نسخوں میں اختلافات تھے۔چوکہ اپنی ابتدائی صدیوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات زیادہ تیزی سے سے نہ پھیل سکی تھیں، اس لیے بہت کم لوگ عیسوی تعلیمات سے روشناس تھے۔ جب یہ لوگ راہی ملک عدم ہوئے تو انجیل کی اصل تعلیمات بھی تاریخ کی گرد میں گم ہونے لگیں۔ لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے حواریوں کی لکھی ہوئی انجیل بھی بہت جلد نظروں سے اوجھل ہوگئی۔یہاں تک کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے ساڑھے تین سو سال بعد تقریباً 367 عیسوی میں ایک عیسائی راہب نے موجودہ بائبل ترتیب دی۔[3]
انٹرنیشل بائبل سوسائٹی نے اپنی مشہور زمانہ ویبسائٹ بائبلیکا کے صفحے پر بائبل کی جمع و تدوین کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔جس سے ہمارے اوپر بیان کیے گئے واقعات کی مکمل تصدیق ہوجاتی ہے۔بائبل کے بارے میں ذہن نشین کرلیں کہ یہ اصلاً عیسائیوں کی مقدس کتاب ہے، تاہم اس میں یہودیوں کی بعض مقدس کتابیں بھی شامل کی گئی ہیں۔بائبل کے دو حصے ہیں ، پہلا حصہ عہد نامہ قدیم (اولڈ ٹیسٹامنٹ) اور دوسرا حصہ عہدنامہ جدید (نیو ٹیسٹا منٹ) کہلاتا ہے۔انٹر نیشنل بائبل سوسائٹی کے مطابق عہد نامہ قدیم 39 مجلات (اسفار) یا کتابوں پر مشتمل ہے، جن میں سے پہلے پانچ مجلات کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ تورات ہے۔جبکہ عہد نامہ جدید 24 کتابوں کا مجموعہ ہے۔عیسائیوں کا دعویٰ ہے کہ عہد نامہ قدیم و جدید کے یہ66 مجلات خدا کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔جبکہ یہودی اس دعوے کو قبول نہیں کرتے بلکہ ان کی رائے میں صرف عہد نامہ قدیم ہی خدا کی طرف سے نازل شدہ ہے۔[4]
بائبل کے بارے میں مذکورہ تفصیلات اس انگریزی بائبل کے بارے میں ہیں جو دنیا میں زیادہ تر دستیاب ہے۔ تاہم یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف فرقوں کا بائبل کی کتابوں کی اصل تعداد کے بارے میں شدید اختلاف ہے۔ قدیم عبرانی بائبل (عہد نامہ قدیم) جس کا صرف یونانی ترجمہ ہی قدیم صحائف میں دستیاب ہے، اس کے بارے میں مشیانک یہودیوں کا اعتقاد ہے کہ اس میں صرف 24 کتابیں ہیں، لہٰذا وہ بائبل کے انگریزی ورژن میں موجود عہد نامہ قدیم کی15 کتابوں کو خدا کا کلام ماننے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف عیسائیوں کے تین بڑے فرقے ہیں، یعنی رومن کیتھولک، ا ٓرتھوڈاکس اور پروٹیسٹنٹ۔ یہ تینوں فرقے بھی بائبل کی اصل کتابوں کی تعداد کے بارے میں مختلف الرائے ہیں۔رومن کیتھولک فرقے کے مطابق عہد نامہ قدیم کی 39 نہیں بلکہ 46 کتابیں ہیں۔اسی طرح رومن کیتھولک بائبل کے عہد نامہ جدید میں 24 کی بجائے 27 کتابیں شامل ہیں۔غرض خود بائبل کے بارے میں عیسائی فرقوں کا اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔عہدنامہ جدید کی ان 27 کتابوں میں سے صرف چار کتابوں کے بارے میں عیسائی فرقوں کا اتفاق ہوسکا ہے کہ وہ سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے چار حواریوں کی لکھی ہوئی اناجیل (گوسپلز) ہیں، یعنی متی(میتھیو)، لوقا (لیوک)، مرقس (مارک) اور یوحنا (جان)۔[5]
بہت سی ایسی کتابیں بھی تھیں، جنہیں بائبل میں سرے سے شامل ہی نہیں کیا گیا، مگر زمانہ قدیم میں خود عیسائی راہبوں کے نزدیک وہ انجیل شمار ہوتی تھیں، ان میں سب سے مشہور مثال برنباس ، ٹامس، جیمز، پیٹر، جوڈی وغیرہ کی لکھی ہوئی اناجیل ہیں۔[6]
اس سے بھی حیرت انگیز معاملہ یہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے جو حقیقی پیروکار تھے، وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نصرت کرنے کی وجہ سےابتدا میں نصاریٰ کہلاتے تھے، جن کے کوائف اسرائیلی روایات میں محفوظ ہیں، مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ عیسائی انہیں یہودیوں کا ایک فرقہ قرار دیتے ہیں اور یہودی انہیں عیسائیوں کا فرقہ قرار دیتے ہیں۔اسی لیے اب انہیں پہچان کے لیے جیوش کرسچین بھی کہا جاتا ہے۔[7]عہد نامہ جدید کی کتاب تماثیل (ایکٹس) باب 24:5 میں نصاریٰ کو ایک گمراہ فرقے کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[8]نصاریٰ درحقیقت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو کنواری مریم کا بیٹا تسلیم کرتے تھے، اسی طرح ان کا اعتقاد تھا کہ تورات منسوخ نہیں ہوئی بلکہ اس کے احکام جاری و ساری ہیں۔نیز یہ کہ وہ مانتے تھے کہ تورات میں جس مسیحا کے آنے کی بشارت دی گئی ہے وہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں۔[9]نصاریٰ تورات کے علاوہ صرف آرامی انجیل کو مانتے تھے، جبکہ دوسری مزعومہ اناجیل کو وہ کتاب مقدس ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔لہٰذا انجیل نصاریٰ کو بھی بائبل میں جگہ نہیں مل سکی اور ان کے مذکورہ اعتقادات کی وجہ سے یہودونصاریٰ دونوں نے انہیں اپنا حصہ ماننے سے انکار کردیا۔ اگرچہ آہستہ آہستہ نصاری ٰ میں بھی بدعات کا اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھی عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے کا عقیدہ تسلیم کرلیا۔رسول اکرم ﷺ کے مبارک زمانہ میں نجران کے عیسائی خود کو نصاریٰ ہی کہا کرتے تھے، اسی لیے قرآن نے جملہ عیسائیوں کو نصاریٰ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اگرچہ کرسچین کی اصطلاح اس وقت بھی روم میں مستعمل تھی۔
ان سب حقائق کو جاننے کے بعد کسی ذی شعور شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ بائبل کو من و عن خدا کا کلام تسلیم کرسکے۔یاد رہے کہ اصل تورات عبرانی زبان میں اور اصل انجیل آرامی زبان میں تھی۔ یہ دونوں زبانیں دنیا سے ناپید ہوگئی تھیں۔ اگرچہ یہودیوں نے عبرانی زبان کو دوبارہ زندہ کرکے یونانی زبان میں دستیاب عہدنامہ قدیم کا عبرانی زبان میں ترجمہ کرلیا ہے، تاہم اسے کسی صورت بھی اصل تورات قرار نہیں دیا جاسکتا۔ رہی آرامی زبان تو وہ دنیا سے یکسر ناپید ہوچکی ہے اور ہمارے پاس عبرانی زبان میں انجیل کا کوئی ایک نسخہ بھی موجود نہیں ہے۔غرض بائبل میں جوکچھ بھی ہے بہر کیف وہ خدا کا اصل کلام نہیں ہے۔ یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہی جارہی بلکہ خود یورپی ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے اعتقاد کے مطابق بھی بائبل میں خدا کے اصل کلام کی تفسیرو تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بعینہ وہی کلام ہرگز نہیں ہے جو سیدنا موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام پر نازل ہوا تھا۔نیز اس میں بےشمار اضافے اور ترامیم کردی گئی ہیں۔
پس سابقہ کتب پر ایمان لانے کا یہ ہرگز مقصود نہیں ہے کہ بائبل کے تمام مندرجات پر من وعن ایمان لایا جائے۔ بلکہ ہمارے نزدیک بائبل پر اجمالی ایمان کو واجب کہنا بھی درست نہیں، کیونکہ نہ تو یہ کلام اللہ ہے اور نہ ہی اس کی سچی تعبیر۔ جمہور علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ اگر قرآن حکیم کا صرف انگریزی یا اردو ترجمہ شائع کیا جائے تو محض ترجمہ کی کتاب کو قرآن یا کلام اللہ نہیں کہا جائے گا کیونکہ یہ ترجمہ کرنے والے کی تعبیر ہے نہ کہ اصل کلام اللہ۔جب قرآن کا صرف ترجمہ کلام اللہ نہیں کہلا سکتا تو سابقہ کتب کے تحریف شدہ ترجمے کلام اللہ کیسے تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ پھر بائبل کے بارے میں ہمارا درست رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کا جواب درج ذیل آیات میں پوشیدہ ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّؕ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ [10]
اور اے رسول محمد ! ﷺ ہم نے آپ پرحق پر مشتمل کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر حاکم و نگہبان ہے۔ لہذا ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے (آپ پر) نازل کیا ہے، اور جو حق بات آپ کے پاس آگئی ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ہم نے ایک (الگ) شریعت اور طریقہ مقرر کیا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا، لیکن (الگ شریعتیں اس لیے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے۔ لہذا نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ تمہیں وہ باتیں بتائے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔ اور (ہم حکم دیتے ہیں) کہ آپ ان لوگوں کے درمیان اسی حکم کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرنا، اور ان کی اس بات سے بچ کر رہیں کہ وہ آپ کو فتنے میں ڈال کر کسی ایسے حکم سے ہٹا دیں جو اللہ نے آپ پر نازل کیا ہو۔ اس پر اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ان کو مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے۔ اور ان لوگوں میں سے بہت سے فاسق ہیں۔
ان آیات کریمہ سے درج ذیل نکات نکھر کر سامنے آجاتے ہیں
1۔ قرآن حکیم سابقہ کتب سماویہ پر حاکم و نگہھبان ہے یعنی یہ انہی کتابوں کی تعلیمات کو بالتفصیل پیش کرتا ہے۔
2۔ موجودہ تورات و انجیل چونکہ تحریف شدہ ہیں، اس لیے ان کے صرف وہی مندرجات درست ہیں جن کی قرآن تائید کرتا ہے، وہ مندرجات جو قرآن سے مطابقت نہیں رکھتے وہ درحقیقت تحریف شدہ ہیں۔
3۔ نبی ﷺ کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ وہ اب نہ صرف اہل ایمان بلکہ اہل کتاب کے جھگڑوں کا فیصلہ بھی قرآن کے مطابق فرمائیں گے، ناں کہ ان کی تحریف شدہ کتب کے مطابق۔
4۔ سابقہ تحریف شدہ کتب کے مندرجات اہل ایمان کو قرآنی حقائق کے بارے میں کسی شک شبہہ میں نہ ڈالنے پائیں۔
عَنْ جَابِرٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ((لَا تَسْأَلُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ عَنْ شَیْئٍ فَاِنَّہُمْ لَنْ یَہْدُوْکُمْ وَقَدْ ضَلُّوْا، فَاِنَّکُمْ اِمَّا أَنْ تُصَدِّقُوْا بِبَاطِلٍ أَوْ تُکَذِّبُوْا بِحَقٍّ، فَاِنَّہُ لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ مَا حَلَّ لَہُ اِلَّا أَنْ یَتَّبِعَنِیْ۔)) [11]
(مسند أحمد: ۱۴۶۸۵)
سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کیا کرو، کیونکہ وہ ہرگزتمہاری رہنمائی نہیں کرسکتے، کیوں کہ وہ تو خودگمراہ ہو چکے ہیں، اور اس صورت میں یا تو تم کو باطل کی تصدیق کرنا پڑے گی یا حق کو جھٹلانا پڑے گا، پس بیشک اگر موسیؑ بھی تمہارے اندر زندہ ہوتے تو ان کے لیے حلال نہ ہوتا، مگر میری پیروی کرنا۔
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ـ رضى الله عنهما ـ قَالَ كَيْفَ تَسْأَلُونَ أَهْلَ الْكِتَابِ عَنْ شَىْءٍ، وَكِتَابُكُمُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَحْدَثُ، تَقْرَءُونَهُ مَحْضًا لَمْ يُشَبْ وَقَدْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ بَدَّلُوا كِتَابَ اللَّهِ وَغَيَّرُوهُ وَكَتَبُوا بِأَيْدِيهِمُ الْكِتَابَ وَقَالُوا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ. لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً، أَلاَ يَنْهَاكُمْ مَا جَاءَكُمْ مِنَ الْعِلْمِ عَنْ مَسْأَلَتِهِمْ، لاَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا مِنْهُمْ رَجُلاً يَسْأَلُكُمْ عَنِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْكُمْ. [12]
سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نے فرمایا کہ کہ تم اہل کتاب سے کیسےکسی شے کی بابت پوچھ سکتے ہو؟جبکہ ابھی تمہاری کتاب مقدس (قرآن) رسول اکرم ﷺ پر نئی نئی نازل ہوئی ہے۔تم لوگ اس کی تلاوت کرتے ہو جو کہ بوسیدہ بھی نہیں ہوئی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں بتا چکا ہے کہ اہلِ کتاب نے اللہ کی کتاب میں ردو بدل کردیا تھا اور اس میں تحریف کردی تھی، پھر اپنے جی سے کتاب لکھ کر کہہ دیا کرتے تھے کہ اسے اللہ نے نازل کیا ہے، وہ بھی محض چند سکو ں کی خاطر؟کیا علم وحی جو تم تک پہنچا ہے اس نے ان(اہلِ کتاب) سے کچھ بھی پوچھنے سے منع نہیں کردیا؟ارے میں نے تو اہل کتاب میں سےکسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو تم پر نازل ہونے والی کتاب (قرآن) کے بارے میں تم سے کچھ پوچھتا ہو۔
اللہ اکبر! عظیم لوگوں کی باتیں بھی عظیم ہوتی ہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس علیہما السلام نے سورۃ المائدہ کی مذکورہ بالا آیت سے کیا کیا نکات اخذ کیے ہیں، جبکہ دوسری طرف اہل کتاب سے مرعوب لوگ بائبل کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے۔بائبل سے اپنے نظریات کشید کرنے والے یہ لوگ عوالناس کو بھی کھلے عام بائبل پر ایمان لانے اور اس کا مطالعہ کرنے کی پُرزوردعوت دیتے نظر آتے ہیں۔بعض نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ قرآن نے بہت سے واقعات کی تفصیل محض اس لیے بیان نہیں کی کہ ان کی تفاصیل بائبل میں پہلے ہی بیان کردی گئی ہیں۔ لہٰذا ان واقعات کی تفصیل بیان کرنا تحصیلِ حاصل ہوتا۔ گویا قرآن نے بائبل کی تفاصیل کو درست تسلیم کرتے ہوئے، خود ان واقعات کی تفصیل بیان کرنا ضروری نہیں سمجھا۔یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو نہ تو قرآن و سنت میں کہیں مذکور ہے اور نہ ہی سلف صالحین نے ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے۔
ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوھاب
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین و علی آلہ اجمعین