2025-07-06
کیا اصل قرآن دنیا سے غائب ہوچکا ہے؟

کیا اصل قرآن دنیا سے غائب ہوچکا ہے؟

اگرامام  علی علیہ السلام نے اصل قرآن کہیں چھپا دیا  تھا تو گویا انہوں نے امت کوقرآن  کی  اصل تعلیمات سے محروم کردیا ۔ کیا یہ امام علی علیہ السلام پر شدید بہتان نہیں ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ کا حفاظتِ قرآن کا منصوبہ کیا ہوا؟

قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا لازوال معجزہ ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اس نے اپنے سر لیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ

بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

سورۃ الحجر:آیت ۹

رسول اکرم ﷺ نے قرآن حکیم کی تعلیمات کو چار اہم طریقوں سے محفوظ بنایا:

1۔ تلاوت

2۔ کتابت

3۔ حِفظ

4۔ عملی تربیت

قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر ہے کہ رسول اکرم ﷺ لوگوں کو دعوتِ توحید دینے کے لیے انہیں قرآنی آیات پڑھ کر سنایا کرتے تھے جوکہ دعوتِ توحید سے لبریز ہیں۔ جو خوش بخت ہستیاں آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہہ کر ایمان قبول کرتی تھیں، ہم انہیں آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین  کے  نام سے یاد کرتے ہیں، ان عظیم ہستیوں میں آپ لے اہلِ بیت یعنی بنو ہاشم بھی شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف دعوتِ ایمان قبول کرنے میں سبقت فرمائی بلکہ ہر قدم پر آپ ﷺ کی حفاظت فرمائی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ-وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ

بلکہ وہ ان لوگوں کے سینوں میں روشن آیات ہیں جنہیں علم دیا گیا اور ہماری آیتوں کا انکار صرف ظالم لوگ کرتے ہیں ۔

اہلِ بیت رسول صلوات اللہ علیہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین رسول اکرم ﷺ سے براہ راست سبقاً سبقاً  قرآن سیکھا کرتے تھے، آیات بھی اپنے سینوں میں محفوظ کرتے اور ان کا مفہوم بھی ذہن نشین کرتے۔بلامبالغہ سیکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن حکیم حفظ کرنے کا شرف حاصل کیا اور نبی ﷺ کے فرمان بلغوا عنی ولو آیۃ  پر عمل کرتے ہوئے اسے دورے لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔

رسول اکرم ﷺ نے قرآن حکیم کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں محفوظ کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس وقت دستیاب تمام ذرائع ابلاغ استعمال فرمائے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی آپ اسے فوراً تحریر کرنے کا حکم فرماتے۔ کاتبین ِ وحی (قرآن کی کتابت کرنے والوں ) کی ایک جماعت آپ ﷺ کی خدمت میں یہ حاضر رہتی جو ہر نازل ہونے والی وحی کو چمڑے کے پارچہ جات پر لکھ کر محفوظ فرما لیتے تھے۔ اگرچہ دوران سفر فوری طور پر چمڑہ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں کھجور کی چھال یا اونٹ کی شانے کی ہڈی پر بھی قرآن لکھا گیا، مگر یہ عام معمول نہیں تھا۔ عام طور پر قرآن چمڑے کے پارچوں پر ہی لکھا جاتا تھا، جن کی طرف قرآن میں صحف مطہرہ  کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے۔

جب رسول اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو اس وقت قرآن حکیم سیکڑوں صحابہ کرام و اہلِ بیت کے سینوں کے علاوہ چمڑے کے پارچہ جات پر بھی محفوظ حالت میں موجود تھا، تاہم اسے ایک مجلد کتاب کی شکل نہیں دی گئی تھی۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو انہوں نے ایک جماعت کو یہ کام تفویض کیا کہ قرآن حکیم کو اسی ترتیب پر ایک مجلد کتاب کی شکل دی جائے جس ترتیب پر جبریل امین نے نبی ﷺ کے آخری دو سالوں میں رمضان میں دورہ کیا تھا۔  پس اس کمیٹی نے اسی ترتیب پر قرآن کو ایک کتابی شکل میں جمع کردیا جس ترتیب پر نبی ﷺ انہیں قرآن پڑھایا کرتے تھے۔

دشمنانِ صحابہ کے اس پروپیگنڈے میں کوئی وزن نہیں کہ معاذاللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کی ترتیب بدل دی تھی۔ بعض بد بخت تو یہان تک الزام لگاتے ہیں کہ صحابہ کرام نے صرف قرآن کی ترتیب ہی نہیں بدلی بلکہ اس کی متعدد سورتیں بھی ضائع کردی تھیں۔ باور کرلیں کہ ان لزامات میں کوئی حقیقت نہیں، یہ محض جھوٹ کا پلندہ ہے۔ قرآن پر ایمان رکھنے ولا ہر مومون یقین رکھتا ہے کہ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے، تو کیا معاذاللہ وہ قرآن کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوگیا؟

یہ درست ہے کہ قرآن کو ترتیبِ نزولی پر جمع نہیں کیا گیا بلکہ ترتیبِ توقیفی پر جمع کیا گیا ہے۔ ترتیب ِ نزولی سے مراد قرآن کی وہ ترتیب ہے جس پر قرآن وقفے وقفے سے نازل ہوتا رہا۔ اس ترتیب کو ہم آسانی کے لیے تاریخی ترتیب یا تاریخ وار ترتیب کہہ سکتے ہیں۔  جبکہ قرآن کی ترتیبِ توقیفی سے مراد قرآن کی وہ ترتیب ہے جس پر نبی ﷺ نے کاتبینِ وحی کو قرآن لکھوایا اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کو سکھایا۔یہ وہی ترتیب ہے جس پر نبی ﷺ نمازوں میں قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔اسی ترتیب پر جبریل امین نے آپ کی زندگی کے آخری سال رمضان المبارک میں دو بار دور کیا، یعنی آپ ﷺ کو مکمل قرآن پڑک کر سنایا۔

تاریخِ یعقوبی وغیرہ کی بعض مخدوش روایات میں ذکر ہے کہ امام علی علیہ السلام نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد  تقریباً چھے ماہ میں قرآن کو ترتیبِ نزولی پر جمع فرمایا تھا۔اسی روایت میں ذکر ہے کہ جب امام علی علیہ السلام ترتیب نزولی پر لکھا گیا نسخہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس لائے تو انہوں نے اس نسخے کو قبول کرنے سے انکار کردیا ، جس پر ناراض ہوکر امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اب تم کبھی اس نسخۂ قرآن کو دوبارہ نہ دیکھ سکوگے۔اس روایت میں شامل امام علی علیہ السلام کی طرف منسوب یہ قول ہی اس روایت کے جھوٹا ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ امام علی علیہ السلام تو باب العلم ہیں اور اللہ تعالیٰ نے علما کو کتمانِ علم سے منع فرمایا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن حکیم پر سب سے بڑھ کے عمل کرنے والے  امام  علی علیہ السلام ہی قرآن کے حکم کی خلاف ورزی کرنے لگیں، جبکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ القرآن مع علی والعلی مع القرآن (قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے)۔ بھلا علم کے سرچشمے سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ علمِ وحی یعنی قرآن کو ہی چھپالے؟

اگر معاذاللہ امام  علی علیہ السلام نے اصل قرآن کہیں چھپا دیا  تھا تو گویا انہوں نے امت کوقرآن  کی  اصل تعلیمات سے محروم کردیا ۔ کیا یہ امام علی علیہ السلام پر شدید بہتان نہیں ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ کا حفاظتِ قرآن کا منصوبہ کیا ہوا؟ اگر اصل قرآن امت کے پاس ہی نہ رہا تو امت اس پر عمل کیسے کرے گی اور دوسری اقوام کو اس کی طرف کیسے بلائے گی؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منصوبہ ناکام ہوگیا؟ (معاذاللہ) کیا اللہ کا  ہمیشہ غالب رہنے والا دین معطل ہوگیا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Discover more from دَارُالحِکمۃ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading